کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 241
سے انکار کر دیا اور فرمایا: میرا کام باہر جا کر تبلیغ کرنا ہے اور گدی کی پابندیاں اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔ آخر میرے خالو شاہ بدر الدین صاحب جانشین ہوئے۔
حضرت شاہ صاحب نے اس چھوڑی ہوئی خانقاہ میں پھر کبھی اقامت نہ کی۔ پھلواری برابر آتے جاتے تھے، لیکن عمر بھر آپ کی والدہ (میری نانی) میرے ہی مکان میں رہیں اور آپ بھی ہمیشہ میرے ہاں ہی قیام فرماتے۔ شاہ بدر الدین صاحب یہیں ملنے آیا کرتے تھے اور جب کبھی حضرت شاہ صاحب خانقاہ میں ملنے جاتے تو وہ شاہ صاحب کے لیے گدی چھوڑ کر علیحدہ بیٹھ جاتے تھے، لیکن حضرت شاہ صاحب نے جس گدی کو چھوڑا، اس پر پھر کبھی نہ بیٹھے۔پھلواری کی گدی چھوڑتے وقت حضرت شاہ صاحب نے ایک خطبہ عربی زبان میں لکھ کر باہر والے املی کے درخت پر لٹکا دیا۔ یہ خطبہ بہت ہی بلیغ تھا، جس میں تمام اہلِ بدعت کو بڑے زور سے للکارا گیا تھا اور اتباعِ سنت کی طرف دعوت دی گئی تھی۔ یہ خطبہ آپ کے صاحبزادے برادرم شاہ احمد حبیب صاحب نے ایک چھوٹے پمفلٹ میں کسی مضمون کے ساتھ شائع کیا تھا۔‘‘[1]
حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے تعلق:
ترکِ سجادگی کے بعد مولانا اپنے سسرال گھگھٹہ منتقل ہو گئے۔ مولانا ممدوح کے احوال کی اطلاع جب شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی کو ملی تو انھوں نے مولانا کو سندِ حدیث بھیجی۔ بعد ازاں مولانا کو سید نذیر حسین محدث دہلوی کی زیارت اور ان کی خدمت میں رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
شاہ محمد جعفر پھلواروی لکھتے ہیں :
’’حضرت شاہ صاحب حضرت میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کی خدمت میں بھی رہے۔ میاں صاحب شاہ صاحب کی بڑی عزت کرتے تھے، آپ نے اپنا ایک رومال بھی شاہ صاحب کو دیا تھا، جسے آپ بڑے احترام سے رکھتے تھے، کسی کو اس سے ہاتھ نہ پوچھنے دیتے۔‘‘[2]
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء
[2] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہو) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء