کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 240
والے مولانا شاہ محمد جعفر ندوی پھلواروی لکھتے ہیں :
’’شاہ صاحب میرے حقیقی ماموں ہیں ، شاہ مجیب اللہ کے (پڑ) پوتے۔ اپنے والد حضرت شاہ علی حبیب پھلواروی کے جانشین کم سنی ہی میں ہو گئے تھے، ہنوز تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی۔ سجادگی کے بعد اکثر کتابیں مولانا علی نعمت صاحب پھلواروی سے پڑھیں ، مولانا پکے اہلِ حدیث تھے۔ رشتے میں میرے خالو تھے۔ ان کی تعلیم نے شاہ صاحب کے خیالات میں ایک تموج پیدا کر دیا۔ آخر ایک دن چپکے سے پھلواری کی گدی چھوڑ کر چل دیے۔ اس خانقاہِ مجیبیہ کے سجادہ نشیں کے لیے بعض قیود چلی آ رہی ہیں جن کو سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب ہی نے توڑا۔ یہاں کا سجادہ نشیں کسی فتوے پر دستخط نہیں کر سکتا تھا، آپ نے علانیہ اس رسم کو توڑا۔ سجادگی سے پہلے اگر اس نے حج نہیں کیا تو بعد از سجادگی وہ کہیں باہر حتیٰ کہ حج کو بھی نہیں جا سکتا تھا، سب سے پہلے آپ ہی نے اس رسمِ قبیح کو توڑا اور علانیہ حج کیا۔ یہ جزئی باتیں تھیں ۔ کہاں تک اصلاح کرتے؟ آخر گدی ہی چھوڑ بیٹھے اور ضلع چھپرہ کے ایک گاؤں حکیم آباد گھگھٹہ کو اپنا مسکن بنایا۔ اللہ نے آپ کو اس کے بعد بڑی عزت اور اقتدار بخشا، لیکن خانقاہیت کی طرف کبھی مائل نہ ہوئے۔ اہلِ حدیث طبقہ تو آپ کا اتنا احترام اور اتنی عزت کرتا تھا کہ میں نے کسی کا اقتدار اتنا زیادہ نہیں دیکھا۔
اربابِ تصوف (آپ) کا احترام اب بھی اسی طرح کرتے جس طرح دورانِ سجادگی میں کرتے تھے۔ آپ کی موجودگی میں جمعہ کے سوا کوئی نماز ہمارے والد ماجد نے نہیں پڑھائی۔ آپ کے پیچھے میں نے بہت سی نمازیں پڑھیں ہیں ، پھلواری میں بھی، شاہ آباد میں بھی اور حکیم آباد میں بھی۔ نماز میں اتنی تعدیلِ ارکان ہوتی تھی کہ بعض اوقات جلد باز گھبرا جاتے تھے۔ آپ ہی کی سی نماز آپ کے داماد برادرم مولوی شاہ محمد ہارون صاحب فریدی پھلواروی پڑھاتے اور ان ہی کے دم سے اب پھلواری میں ’’وہابیت‘‘ قائم ہے۔
حضرت شاہ صاحب کے گدی چھوڑنے کے بعد لوگوں نے حضرت والد ماجد (شاہ محمد سلیمان پھلواروی) سے گدی پر بیٹھنے کی درخواست کی، لیکن آپ نے اس بار کو اٹھانے