کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 24
پڑھائے جاتے تھے، بلکہ قلب و نظر کی دنیا بھی آراستہ کی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے صاحبِ کمال اس درس گاہ سے نکلے، جنھوں نے پوری زندگی خدمتِ دین کے لیے وقف کر دی۔
شہرت و ناموری تو بخت و نصیب کی بات ہے، وگرنہ اس درس گاہ کی ایک حیرت انگیز تاثیر یہ رہی کہ جو تلامذہ نکلے، وہ خدمتِ دین کے جذبے کی تڑپ لے کر نکلے۔ وہ جہاں جہاں گئے اس جذبے کی آگ نے انھیں ہمیشہ فروزاں رکھا۔ کثرتِ تلامذہ اور پھر کبار ذی علم شاگردوں کا جو مجمع سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کو حاصل ہوا، علمائے ہند اور متاخرین میں کوئی اس باب میں ان کا ہم سر نہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ برصغیر کے مختلف خطوں میں حضرت میاں صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ کی خدمات کا جائزہ لیا جائے۔ ان مقامات پر حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کے جو فکری اثرات مرتب ہوئے، اس کی مکمل تاریخ جمع کر دی جائے۔ حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کو اﷲ تعالیٰ نے ایک سو برس کی عمر عطا کی، ان کے بعد ان کے تلامذہ نے تقریباً ستر برس تک اپنی جہود و مساعی کا سلسلہ جاری رکھا۔[1] عملی اعتبار سے یہ تقریباً ایک سو چالیس برس کی تاریخ ہے۔ ہر شاگرد کے حالاتِ زندگی کی جستجو اور اس کی جہود و مساعی کا جائزہ، یہ کوئی آسان کام نہیں ۔ میاں صاحب کے تلامذہ کی تعداد محاورتاً ہزاروں میں نہیں ، بلکہ اس محاورے پر حقیقت کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔
عرصہ سے خواہش تھی کہ اس موضوع پر سبقتِ قلم کی جائے، مگر موضوع کی وسعت کے سامنے اپنی کم مائیگی کا خیال غالب رہا۔ قلم، احساس کی تمام تر شدت کے باوجود عمل کی قوت سے محروم ہی رہا، تاآنکہ ادارہ احیاء التراث الاسلامی (کویت) کے ذیلی شعبے لجنۃ القارۃ الہندیہ کے مدیر محترم فضیلۃ الشیخ ابو خالد فلاح المطیری حفظہ اللہ اور الشیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کی ترغیب نے میرے شوق کو مہمیز لگائی۔ میرے قلم نے تحقیق و جستجو کے جو مراحل طے کیے ہیں ، وہ ادارہ احیاء التراث الاسلامی کویت کا رہینِ منت ہے اور اس کے لیے یہ بزرگوار ہی اہلِ علم کی جانب سے شکریے کے مستحق ہیں ، جن کی ترغیب و تشویق نے مجھے ہمتِ تازہ عطا کی اور یہ دیرینہ خواب پردۂ حقیقت پر مرتسم ہوا۔
عصرِ حاضر کے مایۂ ناز عالم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف مدظلہ نے اپنی مصروفیات کے باوجود
[1] میاں صاحب کے تلامذۂ کرام میں سب سے آخر میں وفات پانے والے مولانا عبدالحکیم جیوری ہیں ، جن کی وفات ۱۹۷۲ء میں ہوئی۔