کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 239
گاؤں یا قصبہ میں مبلغ کی حیثیت سے ساری زندگی گزار دی ۔رحمۃ اللّٰه علیہ۔ خانقاہِ مجیبیہ کی تاریخ کا یہ بڑا دل سوز سانحہ ہے، ان کے لیے بھی جنھوں نے سمجھا، اور ان کے لیے بھی جنھوں نے نہ سمجھا۔‘‘[1]
ہمیں اپنے قصورِ علم و فہم کا اعتراف ہے کہ مولانا گیلانی کی تحریر سے نتائجِ فکر کا اخذ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں ، یہ عارفانہ نکتے تو کوئی صاحبِ کشف و الہام ہی سمجھ سکتا ہے، وگرنہ بات تو واضح ہے کہ کتاب و سنت اور نظامِ خانقاہیت کی موجودہ شکل میں بے انتہا بُعد ہے اور کوئی بھی صاحبِ دل پیغامِ شریعت کو جان لینے کے بعد ان رسوم و عوائد سے اظہارِ بیزاری کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مولانا گیلانی کے عقیدت مندوں سے معذرت کے ساتھ اس قدر اختلاف کا اظہار بھی ضروری ہے کہ مولانا شاہ عین الحق نے اپنی پوری زندگی محض ایک قصبہ میں صرف مبلغ کی حیثیت سے نہیں گزار دی۔ وہ اسلام کے بہت بڑے داعی تھے، ان کا علم و عمل اور جہد و اخلاص مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل بنا۔
شاہ عین الحق ترکِ سجادگی کے بعد عوام الناس کی رشد و ہدایت کے لیے کہیں زیادہ مستعد ہوگئے۔ نہ صرف وعظ و تذکیر کا آغاز فرمایا: بلکہ مسندِ تدریس پر جلوہ افروز ہوکر تشنگانِ علومِ دینیہ کے لیے حرزِ جاں بھی بنے اور ساتھ ہی راہوارِ قلم کو جنبش دینے کے علاوہ دینی و علمی تحاریک میں بھی نمایاں حصہ لیتے رہے۔ مولانا کے ایک معاصر مولانا فضل حسین بہاری رقمطراز ہیں :
’’آپ (شاہ عین الحق پھلواروی) اپنے طبقہ میں پہلے شخص ہیں جو کہ جوشِ اتباعِ سنت میں خلوت سے نکل کر حج و زیارت کو گئے اور حج سے واپس آ کر ترکِ خلوت نشینی کر کے وعظ و ہدایت عام خلق اللہ میں مشغول ہو گئے۔ یہ شعر حسبِ حال ہے:
کہ ترا بگفت جاناں کہ بروں ز خلوت آئی کہ انجمن نشینی، دل عالمے ربائی‘‘[2]
شاہ محمد جعفر پھلواروی کا تبصرہ:
مولانا شاہ عین الحق کے حقیقی بھانجے اور ایک طویل عرصہ تک نظام خانقاہی سے وابستہ رہنے
[1] آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۱۳)
[2] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۳۴۵)
’’کس نے تمھیں کہا اے جاناں ! کہ تم خلوت سے باہر آؤ اور انجمن میں بیٹھ کر عالم کی دلربائی کرو۔‘‘