کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 238
شاہ عین الحق کی ترکِ سجادگی کے بعد ۱۷ ذی الحجہ ۱۳۰۹ھ بمطابق ۱۸۹۲ء کو ان کے بہنوئی شاہ بدر الدین خانقاہِ مجیبیہ کے سجادہ نشین بنے، یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ شاہ عین الحق کی اس جراَت و بسالت کے نتیجے میں پھلواری میں تقلیدی زور کم ہوا۔ مولانا کے بعد علامہ تمناؔ عمادی مجیبی پھلواروی نے بھی نظامِ خانقاہیت سے کنارہ کشی اختیار کی اور خانقاہِ منہاجیہ کی جانشینی ترک کر دی۔ خود مولانا کے حقیقی بھانجے اور شاہ سلیمان پھلواروی کے فرزند شاہ محمد جعفر پھلواروی نے بھی خانقاہِ سلیمانیہ کی سجادگی ترک کی۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کا تجزیہ: شاہ صاحب کی ترکِ سجادگی اور خانقاہ سے اس کے تعلق پر مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنے مزاج کے مطابق بڑا دلچسپ تجزیہ کیا ہے، جسے موصوف ’’آثاراتِ پھلواری شریف‘‘ کے مقدمہ میں معرضِ تحریر میں لائے ہیں ۔ لکھتے ہیں : ’’مسندِ سجادگی پر رونق افروزی کے بعد خاندانِ مجیبی کے ایک رکن پر یہ حال طاری ہوا کہ سارے جاہی و مالی منافع سے دست بردار ہوکر سجادگی سے مستعفی ہوگئے۔ بیان کیا گیا ہے کہ یہ حال ان پر حدیث کی تعلیم اور جن صاحب نے تعلیم دی تھی اس کی وجہ سے طاری ہوا، ممکن ہے کہ یہی ہوا ہو، مگر خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کی طلب کا شغف، میرا خیال تو یہی ہے کہ اس ماحول کا نتیجہ تھا جسے خانقاہِ مجیبیہ کے معماروں نے اپنی اس عجیب و غریب خانقاہ میں قائم کیا تھا۔ اتنی جرأت، اتنی ہمت اس غیر معمولی حبی و عشقی نسبت کے بغیر پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی؟ جس کی آگ اس خانقاہ میں دلوں کے اندر لگائی جاتی تھی۔ پس یہ جو کچھ ہوا، ظاہر قالہ اس کا جو کچھ بھی ہو مگر تھا یہ نتیجہ اسی نسبت کا جو خانقاہ کے باہر نہیں بلکہ اندر پیدا کی جاتی تھی۔ اسی لیے میں دوسروں کے متعلق تو نہیں کہتا مگر اس ماجرا کو سن کر اور پڑھ کر مجھ پر تو یہی اثر مرتب ہوا کہ یہ باہر سے نہیں ، بلکہ کہا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے یہ حضرت شاہ عین الحق مرحوم کا قصہ ہے، جنھوں نے مسلک اہلِ حدیث اختیار فرما لیا تھا، اور سجادہ نشین ہونے کے بعد سجادگی اور اس کے سارے منافع سے دست بردار ہوکر ایک