کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 237
مولانا علی چھپروی فرماتے ہیں :
’’ایسی کم کوئی مثال ملے گی جو مثال کہ ہمارے حضرت مولانا شاہ عین الحق صاحب مرحوم نے قائم کی، آپ پھلواری جیسی مہتم بالشان خانقاہ کے سجادہ نشیں تھے لیکن بادئہ توحید نے ایسا مست کیا کہ اس سلطنت کو چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے اور اپنی ساری زندگی محض سادہ طور پر صرف اعلائے کلمۃ الحق میں بسر کر دی۔‘‘[1]
الغرض ۲۵ ذیقعد ۱۳۰۹ھ بمطابق ۱۸۹۲ء کو مولانا نے بزبانِ عربی ایک تقریر لکھ کر خانقاہ کے احاطے میں واقع ایک قدیم املی کے درخت پر لگا دی اور اس خانقاہی نظام سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہو گئے۔ افسوس کہ راقم کو مولانا کی وہ تحریر نہ مل سکی۔
یہ بھی کیا حسنِ اتفاق ہے کہ شاہ عین الحق ۲۵ ذیقعد (۱۳۰۲ھ بمطابق ۱۸۸۵ء ) کے دن زیبِ سجادہ ہوئے اور ۲۵ ذیقعد (۱۳۰۹ھ بمطابق ۱۸۹۲ء) ہی کے دن ترکِ سجادگی کی۔
شاہ عین الحق کی ترکِ سجادگی کوئی معمولی واقعہ نہیں ، بلکہ خانقاہِ مجیبیہ پھلواری شریف کی تاریخ کا سب سے اہم اور اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے۔ یقینا اس امر کے محرک مولانا حکیم علی نعمت تھے، جو اسی خانوادے کے ایک رکن اور رشتہ آبائی کے لحاظ سے شاہ عین الحق کے بھتیجے تھے۔ مگر شاہ عین الحق نے جس جرأتِ ایمانی کے ساتھ تمام تر مخالفتوں کا مقابلہ کیا وہ حد درجہ لائقِ ستایش ہے۔ اہلِ خانقاہ اس فیصلے پر متحیر تھے، انھوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا، مگر مولانا نے اپنے نظریات کے مطابق رجوع الی الحق کی خاطر اسے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔
شاہ عین الحق کی ترکِ سجادگی کے بعد اہلِ خانقاہ پر کیا بیتی؟ افسوس کہ مولانا حکیم محمد شعیب نیرؔ نے اس پر کوئی خاص خامہ فرسائی نہیں کی، بلکہ ممدوح کے حالات بھی انتہائی اختصار کے ساتھ لکھے، مگر اس کے باوجود یہ تحریر بھی آثاراتِ پھلواری شریف کے ایک مقام پر نظر آتی ہے:
’’جب شاہ عین الحق قدس سرہ کے عقائد میں انقلاب عظیم پیدا ہوا اور ترکِ سجادگی کی تو جس طرح خانقاہ کا سارا نظام درہم برہم ہوا، مدرسہ مجیبیہ بھی سابق حالت پر قائم نہ رہ سکا۔‘‘[2]
[1] ’’روداد جلسہ اہلِ حدیث کانفرنس منعقدہ چھپرہ‘‘ (ص:۱۲)
[2] آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۲۳۰)