کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 236
خلافِ شریعت نہ ہو، لیکن بعض پرانے خیر خواہ خانقاہ نے آپ کو اس فعل سے روکا اور طرح طرح کی تکلیف دی۔ یہاں تک کہ آپ نے سجادہ نشینی کو ترک کیا اور غیر مقلدین کے ہاتھ لگ گئے، اور آزادانہ طور سے غیر مقلد ہو گئے اور تا حیات غیر مقلد رہے اور اپنے سسرال مقام گگھٹہ میں مع اہل و عیال اقامت گزیں ہوئے اور بقیہ عمر اتباعِ سنت و اتقا و پرہیز گاری میں بڑی استقلال کے ساتھ بسر کی۔‘‘[1] مولوی بدر الحسن نے ’’یادگارِ روزگار‘‘ (تذکرہ کاملانِ پٹنہ ) میں شاہ عین الحق کی ترکِ سجادگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’شاہ عین الحق صاحب ۔۔۔۔۔ نے مولوی علی نعمت صاحب سے حدیث پڑھی اور شریعت برتنے لگے۔ مریدوں کو خلاف ہوا، اور انھوں نے روک تھام مضامیر (مزامیر) و زیارت کا چاہا، نتیجہ یہ ہوا کہ گدی سے اوترنا ہوا سابش (شاباش)ہے ان کے دل کو دنیا کی وجاہت کو عقیدہ پر صدقہ کیا، گدی چھوڑ دی اور گگھٹہ چلے گئے وہیں رہے۔‘‘[2] سید حسن آرزوؔ ندوی پھلواروی، شاہ عین الحق کی ترکِ سجادگی پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’پھلواری کی سجادگی اس وقت کوئی معمولی چیز نہ تھی۔ پٹنہ اور جوار کے اکثر امر اء و رؤسا عمائدین آپ کے والد بزرگوار کے عقیدت مند تھے اور وہی گرویدگی اور نیاز مندی حضرت شاہ صاحب اسی نسبتِ حقہ کی اپنے جانب ملاحظہ فرما رہے تھے۔ یہ کمالِ ظرف اور اعلیٰ فطرت تھی کہ علی وجہ البصیرۃ جو عقیدہ آپ قائم کر چکے تھے۔ اس کے سامنے ان چیزوں کی ذرہ برابر پروا کیے بغیر اپنے خیال و عقیدہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے لیے پھلواری کو چھوڑ کر ایک کوردہ دیہات میں رہنا پسند فرمایا اور اپنی پوری زندگی ابلاغ اور تبلیغِ رشد و ہدایتِ امت میں صرف کر دی۔‘‘[3]
[1] تذکرۃ الصالحین (ص: ۱۷۳) [2] ’’یادگارِ روزگار‘‘ تذکرہ کاملانِ پٹنہ (۱۲۱۸) [3] المغراف في تفسیر سورۃ قٓ