کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 235
’’اس سلسلے میں آپ نے سب سے پہلے مولانا حافظ ابراہیم صاحب آروی رحمۃ اللہ علیہ سے پوشیدہ طور پر مل کر تبادلہ خیالات کیا۔ مولانا موصوف نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے منصب پر رہ کر زیادہ کام کر سکتے ہیں ۔ سجادہ نشیں رہ کر کامیابی کی زیادہ امید ہے ورنہ لوگ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے اور ایسی صورت میں ناکامیابی کا خطرہ ہے۔ اس کے بعد آپ حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملے اور آپ سے اس کے متعلق گفتگو کی، مولانا ابراہیم صاحب آروی کا خیال بھی ظاہر کیا اور فرمایا کہ سجادہ نشینی سے غلامی نصیب نہیں ہو سکتی، اس لیے میری دلی خواہش ہے کہ اسے ترک کردوں ۔ مولانا نے جواب میں فرمایا: میں اور کچھ نہیں جانتا، آپ کے دادا مرحوم کا صرف ایک شعر پڑھتا ہوں ، بس اسی سے میرا مشورہ سمجھیے: گشتم چوں گدائے کوے جاناں در سر سر غیر و جاہ تا کے [1] اس شعر کو سن کر شاہ صاحب بہت متاثر ہوئے اور سجادہ نشینی سے علیحدہ ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ آپ کی اچانک علیحدگی سے لوگوں میں انتشار پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اس لیے مولانا مرحوم نے اپنے چند خاص اتباع کو اس غرض سے بھیجا کہ وہ شاہ صاحب کی معاونت کریں ، تاکہ خانقاہ چھوڑنے کے وقت کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے۔ چنانچہ وہ لوگ وہاں گئے اور کچھ دنوں مقیم رہے۔ ایک دن راتوں رات جناب شاہ صاحب کو اس طریقے سے لے کر آئے کہ ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی۔ شاہ صاحب نے سجادہ نشینی سے علیحدگی کے بعد جو خدمتیں انجام دی ہیں ، اس کی نظیر مشکلوں سے مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور تمام مومنین صادقین پر خاص رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین‘‘[2] مولوی حسیب اللہ مختار ’’تذکرۃ الصالحین‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’شریعت کی آپ کو سخت پابندی تھی، اس لیے آپ نے چاہا کہ خانقاہ میں جو کام ہو وہ
[1] مولانا عبد العزیز رحیم آبادی، حیات اور خدمات (ص: ۱۶۹، ۱۷۰) [2] ’’میں کوچۂ جاناں کے گدا کی طرح ہو گیا ہوں ، تو پھر سر میں غیر کا سودا اور جاہ کی خواہش کب تک رکھوں !‘‘