کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 234
کی طرح ہاتھ اور سر سے آداب بجا لاتا، اور حضرت جناب بھی اسی طرح نصف قد کھڑے ہو کر تعظیم دیتے۔ میں حیران تھا کہ الٰہی کہاں تو یہ وضعداری ہے کہ کسی معزز سے معزز مہمان کو بھی جا کر نہ ملنا اور کہاں بے حد تواضع جس کی شریعت بھی اجازت نہیں دیتی۔‘‘[1]
اس قانونِ خلوت گزینی کا ایک تقاضا یہ تھا کہ پھلواری کا سجادہ نشین مسندِ سجادگی پر متمکن ہونے سے پہلے اگر حج کے لیے نہ گیا ہوتا تو سجادگی پر بیٹھنے کے بعد حج کے لیے بھی نہیں نکل سکتا تھا، مگر شاہ عین الحق صاحب خانقاہِ مجیبیہ کے پہلے سجادہ نشیں تھے جنھوں نے علانیہ اس رسمِ قبیح کو توڑا اور ۱۳۰۸ھ میں حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے۔ حجازِ مقدس کے اس سفر میں مولانا حکیم محمد ایوب پھلواروی (برادرِ اصغر شاہ محمد سلیمان پھلواروی )بھی ہمراہ تھے۔ اس کے بعد بھی مولانا نے دو مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور وہاں کے علمائے ذی اکرام سے مستفید ہوئے۔
مرض و صحت:
سفرِ حج سے واپس لوٹنے کے بعد مولانا کو تپ دق کا مرض لاحق ہوا، تاہم اللہ نے صحت یاب کیا۔ مولانا شاہ نذیر الحق فائزؔ عمادی پھلواروی نے اس صحت یابی پر فارسی میں ایک قطعہ تاریخ بھی لکھا ہے جو ان کے دیوان میں مطبوع ہے۔[2]
اس سفرِ حج کا مبارک نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا ترکِ سجادگی پر اپنے عزائم میں راسخ ہوئے اور اللہ رب العزت نے روحانی و جسمانی ہر اعتبار سے صحتِ کاملہ عطا کی۔
ترکِ سجادگی:
حج سے واپسی کے بعد مولانا سختی سے شریعتِ مطہرہ پر عامل ہوئے۔ غیر شرعی اعمال پر سخت نکتہ چینی کی۔ مزامیر و سماع پر پابندی لگانی چاہی، مگر اہلِ خانقاہ آڑے آئے، نتیجتاً تمام تر مخالفتوں کے باوجود مولانا نے موروثی سجادگی سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر لیا۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی پر لکھے گئے اپنے سوانحی مضمون میں شاہ عین الحق کی ترکِ سجادگی سے متعلق لکھتے ہیں :
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۷ اپریل ۱۹۰۶ء
[2] دیوانِ فائزؔ (ص: ۱۰۷، ۱۰۸)