کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 233
پھلواری کی خلوت گزینی بڑی مشہور تھی۔ مولانا تجمل حسین دیسنوی لکھتے ہیں : ’’راقم الحروف نے قانون خلوت گزیں ہونے کا جو پھلواری میں دیکھا، دنیا میں کسی خانقاہ میں نہ ہو گا۔‘‘[1] اس قانونِ خلوت گزینی پر ایک دلچسپ تبصرہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے قلم سے بھی ملاحظہ فرمائیے۔ وہ اپریل ۱۹۰۶ء میں بنارس میں ندوۃ العلماء کے جلسے اور علمی نمایش کے بعد پھلواری پہنچے تھے، اس وقت خانقاہِ مجیبیہ کے سجادہ شاہ عین الحق کے بہنوئی شاہ بدر الدین پھلواروی تھے۔ مولانا امرتسری لکھتے ہیں : ’’اب ہم اپنے ناظرین کو پھلواری شریف کی سیر کراتے ہیں ۔ کھگول ہی میں ہمارے مکرم دوست جناب مولوی شاہ محمد سلیمان صاحب کے بھائی مولوی ایوب صاحب اور صاحبزادہ حسن میاں نے پھلواری چلنے پر اصرار کیا۔ چنانچہ خاکسار بہمراہی جناب شاہ محمد عین الحق صاحب پھلواری پہنچے۔ پہونچ کر سنا کہ سجادہ نشین جناب شاہ بدر الدین صاحب ملنا چاہتے ہیں ، مگر قانون سجادہ نشینی کی پابندی سے خود نہیں آ سکتے۔ اس لیے میں ہی یہ شعر پڑھتا ہوا پہونچا کہ وہ نہ آئیں تو تو ہی چل عاجز اس میں کیا تیری شان جاتی ہے سجادہ نشیں صاحب بہت ہی متواضع روشن دماغ ہیں ، بخلاف صوفیائے زمانہ کے۔ آپ میں ایک وصف خاص ہے کہ آپ کو کتب اور اخبار بینی کا بہت شوق ہے، یہاں تک کہ لاہور کے چکڑالوی صاحب کی کتابیں بھی آپ کے پاس موجود ہیں ۔ بلکہ مطالعہ بھی کر چکے ہیں ، مگر ایک بات با ادب کہنے کی ہم اجازت چاہتے ہیں کہ حضرت کے مزاج مبارک میں جیسی اپنے منصب کی وضعداری کی پابندی ہے، اتباعِ سنت کی نہیں ، مثلاً ملاقات کے وقت مسنون طریق تو یہ ہے کہ آنے والا السلام علیکم کہے اور سننے والا وعلیکم السلام، مگر حضرت کی درگاہ میں یہ طریقہ میں نے نہیں دیکھا۔ بلکہ یہ دیکھا ہے کہ جس وقت کوئی آتا تو لکھنؤ والوں
[1] کمالاتِ رحمانی (ص: ۱۳۲، ۱۳۳)