کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 230
اور حکومت میں مخبری کر دی کہ شاہ محمد علی حبیب وہابی ہوگئے ہیں ۔ اس زمانے میں وہابی بمعنی باغی سرکار سمجھا جاتا تھا۔ حکومت نے پھلواری خالی کر دینے کا حکم نافذ کر دیا اور پھلواری اور خصوصاً خانقاہ کو فوجی کیمپ بنانے کی تجویز ہوئی، مگر اس وقت کے حکام رس حضرات نے جدوجہد کر کے حکومت کو مطمئن کیا کہ وہ وہابی نہیں ہیں ، مزید تحقیقات کے بعد یہ حکم اٹھا لیا گیا اور پھلواری کی براء ت کی سند حکومت کی طرف سے دے دی گئی۔‘‘[1] یہاں یہ ذکر بے محل نہیں کہ جماعتِ مجاہدین کی تگ و تاز کے زمانے میں علمائے پھلواری شریف کی بعض تصانیف نے انگریزی حکومت کو خصوصی طور پر برانگیختہ کیا۔ ان میں مولانا شاہ ظہور الحق ظہورؔ پھلواروی کی ’’کسب النبی‘‘، مولانا سید علی اعظم پھلواروی کی ’’معیار المذاہب‘‘ اور شاہ علی حبیب نصرؔ کی ’’اسوۂ حسنہ‘‘ شامل ہیں ۔ یہ بات خاص طور سے قابلِ اعتراض ٹھہرائی گئی تھی کہ آخر الذکر دو کتابوں کے مصنّفین نے وہابیوں کے سرغنہ (سید احمد شہید و شاہ اسماعیل شہید) کو ’’آفتابِ روحانیت‘‘، ’’عماد المتقین‘‘ اور ’’ماہتاب الہٰین‘‘ جیسے القاب سے متصف فرمایا تھا۔ شاہ علی حبیب کو شعر و سخن سے بھی لگاؤ تھا۔ وہ صاحبِ دیوان شاعر تھے اور نصرؔ تخلص فرماتے تھے۔ تقریباً دس سے زائد کتابیں لکھیں ۔ ان کی مشہور کتابوں میں درج ذیل بالخصوص لائقِ تذکرہ ہیں : 1 نعمتِ عظمی: یہ اولین تصنیف فقہ کے بعض مسائل کی تحقیق میں ہے، اس میں چند مسائل خلافِ حدیث ہیں ، جن سے بعد میں رجوع کر لیا تھا۔ 2 ’’شواہد الجمعۃ‘‘: اس میں جمعۃ المبارک کی فرضیت ثابت کی گئی ہے اور فقہائے احناف نے جو شرائط بیان کی ہیں ، انھیں خلافِ حدیث قرار دیا ہے۔ 3 ’’اسوۂ حسنہ‘‘: ردِ تفضیلیت اور فضیلتِ شیخین کے اثبات میں شاہ علی حبیب کی مشہور تصنیف ہے۔ ۱۲۹۲ھ میں
[1] آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۲۷۹)