کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 23
سخن ہائے گفتنی الحمد للّٰه رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین، والعاقبۃ للمتقین، أما بعد۔ برصغیر پاک و ہند کی اسلامی تاریخ، جن علمائے عالی مرتبت کے تجدیدی کارناموں پر بجا طور پر ناز کر سکتی ہے، ان میں شیخ الکل السید الامام نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کا نامِ نامی نمایاں ہے۔ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی شخصیت بڑی جامع اور ہمہ جہت تھی۔ علمی اعتبار سے بہت وسیع الاطراف تھے، تفسیرِ قرآن کے ماہر اور حدیث کے بے نظیر عالم تھے۔ جزئیاتِ فقہ پر ان کی گہری نظر تھی۔ بالخصوص فقہ حنفی پر ان کی ایسی نظر تھی کہ برصغیر پاک و ہند کے فقہائے احناف میں بھی ان کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ تاریخ و رجال سے بھی واقف تھے۔ زہد و ورع میں بھی بے مثال تھے۔ پوری زندگی درویشانہ شان کے ساتھ گزاری۔ وقت کے فتنوں پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ دجالِ کاذب مرزا غلام احمد قادیانی کی تکفیر میں ان کے فتوے نے قادیانیت کے خلاف فضا کو انگیز کیا اور فتنے کے خدوخال کو نمایاں کر دیا۔ ان کی تجدیدی مساعی اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان کی خدماتِ گوناگوں سے آگہی کے لیے ان کی زندگی کے ہر گوشے پر تحقیق و جستجو کے مراحل طے کیے جائیں ۔ اس ضمن میں راقم کی ایک حقیر سی کاوش عرصہ سے زیرِ تحقیق ہے، اﷲ کرے اس عظیم ہستی کی عظمت کا کچھ حق ادا ہو سکے۔ حضرت میاں صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کی زندگی کا سب سے بڑا اور غیر معمولی کارنامہ ان کی خدمتِ تدریس ہے۔ اﷲ نے انھیں طویل عمر عطا کی، گویا تقدیرِ الٰہی نے اس اعزاز و خدمت کے لیے مواقع فراہم کیے۔ پھر اس خدمت کی وسعت پذیری کا یہ عالم تھا کہ صرف پاک و ہند تک یہ سلسلۂ فیض و افادہ محدود نہ رہا، بلکہ دیگر بلادِ اسلامیہ تک بھی پوری آب و تاب کے ساتھ پہنچا۔ سید صاحب کی درسگاہ، علم و عمل کی ایک تربیت گاہ تھی، جہاں محض کتابی علم کے اسباق نہیں