کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 229
شاہ علی حبیب نصرؔ پھلواروی:
شاہ علی حبیب نصرؔاپنے عہد کے کبار علمائے ذِی اکرام میں سے تھے۔ ۲۵ رمضان المبارک ۱۲۴۹ھ میں ولادت ہوئی۔ شاہ محمد حسین پھلواروی سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی۔ والدِ گرامی کی جانب سے سندِ اجازت و خلافت ملی۔ ۲۹ ربیع الثانی ۱۲۶۸ھ کو خانقاہِ مجیبیہ کے سجادہ نشیں ہوئے۔
شاہ علی حبیب کو علمِ حدیث سے خصوصی دلچسپی تھی۔ اس زمانے میں پھلواری میں ایسا کوئی محدث عالم نہیں تھا جو ان کے ذوق کی تسکین کر سکتا، لہٰذا اپنے چچا زاد بھائی مولانا شاہ آل احمد محدث پھلواروی کو، جو ہجرت کر کے مدینہ نبویہ میں سکونت پذیر ہو گئے تھے، بصرفِ زرِ کثیر مدینہ سے بلوایا۔ ۱۲۸۷ھ میں ان سے کتبِ احادیث کی تحصیل سے فارغ ہوئے اور سندِ حدیث لی۔ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طلب اور بے پناہ شغف کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ علی حبیب کسی ایک امام کی تقلیدِ جامد سے آزاد ہوگئے اور کتاب و سنت سے تمسک ہی ان کا مسلک قرار پایا۔ شرک و بدعت کی سختی سے تردید فرماتے اور لوگوں کو بدعاتِ قبیحہ سے مجتنب رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
شاہ علی حبیب کو فقہ حنفیہ کے مسائل و جزئیات پر عبورِ کامل تھا۔ فقہ کے وہ مسائل جو احادیثِ صحیحہ سے ہم آہنگ نہ ہوتے، اسے بلا تامل ترک کر دیا کرتے تھے۔ ابتلا کے وقت نمازِ فجر میں دعائے قنوت کو جائز ٹھہراتے۔ تشہد میں رفعِ سبابہ اور سری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔ بعد از رکوع اور سجدوں کے درمیان ادعیۂ ماثورہ پڑھتے اور اس کی تاکید فرماتے۔ نماز نہایت اعتدال سے اول وقت میں ادا کرتے۔ دیہات میں اقامتِ جمعہ کو جائز قرار دیتے تھے۔[1]
شاہ علی حبیب، سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد کے دل سے معترف تھے۔ مولانا حکیم محمد شعیب نیرؔ پھلواروی، شاہ علی حبیب کے حالات میں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی سے متعلق ایک اہم واقعہ معرضِ تحریر لائے ہیں ۔ لکھتے ہیں :
’’۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد جب کہ اہلِ حدیث باغی حکومت قرار دیے گئے تھے، گرفتاریوں اور ضبطِ املاک کا سلسلہ شروع تھا۔ ۱۸۶۸ء میں بعض معاندین نے یہ مشہور کر دیا
[1] شاہ علی حبیب کے عمل بر حدیث سے متعلق ملاحظہ ہو: ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (۱۰۴۴)، ’’فقہائے ہند‘‘ (۲/۳۹۶)