کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 228
کتبِ درسیہ کی تکمیل کی اور اپنے والد سے اخذِ طریقت کیا۔ شاہ ابو الحسن فارسی و اردو کے با کمال شاعر، بلند پایہ طبیب اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ شاعری میں شاہ نور الحق تپاں ؔ پھلواروی سے اصلاح لیتے تھے۔ فارسی دیوان حکیم محمد شعیب نیرؔ پھلواروی نے ’’دیوانِ فردؔ‘‘ کے نام سے طبع کروایا ہے۔ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید جب پھلواری تشریف لائے تو شاہ ابو الحسن ہی نے ان کی میزبانی کا فریضہ انجام دیا۔ بعض علمی مسائل میں موصوف کی حضرت مولانا محمد اسماعیل سے بحث بھی رہی۔ مولانا شاہ محمد جعفرپھلواروی لکھتے ہیں : ’’مولانا اسماعیل کا ہمارے پر نانا یعنی مولانا شاہ عین الحق کے دادا حضرت شاہ ابو الحسن فردؔ سے بعض مسائل پر مناظرہ بھی ہوا تھا۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ بسنت کی جو ہندوانہ رسم پھلواری میں رائج ہے وہ بالکل شرک ہے۔ حضرت فردؔ کہتے تھے کہ شرک نہیں ہے۔ مناظرے کا کوئی اچھا ثمرہ تو کم ہی دیکھا گیا ہے، مناظرے کے بعد دونوں پارٹیاں آج تک یہی کہتی ہیں کہ ہم جیت گئے تھے۔ یہ اللہ ہی جانے کہ کون جیتا تھا۔ ہم صرف اس قدر جانتے ہیں کہ حضرت شاہ فرد کے بعد جب حضرت شاہ علی حبیب جانشین ہوئے تو اس رسمِ بسنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اس کے بعد شاہ عین الحق صاحب جانشین ہوئے تو بالکل ہی فارورڈ بلاک کے ثابت ہوئے۔ غلط نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ پھلواری میں وہابیت کا بیج مولانا علی نعمت کا بویا ہوا نہ تھا، بلکہ مولانا اسماعیل شہید ہی یہ تخم ریزی کر گئے تھے۔‘‘[1] شاہ ابو الحسن فردؔ نے ۲۴ محرم ۱۲۶۵ھ کو بعارضۂ فالج وفات پائی۔[2] ان کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ نور العین سجادہ نشین ہوئے، مگر انھوں نے صرف اڑھائی برس مسند نشیں رہ کر ۲۶ ربیع الثانی ۱۲۶۸ھ کو وفات پائی۔ان کے بعد شاہ ابو الحسن فرد کے چھوٹے صاحبزادے شاہ علی حبیب نصرؔ خانقاہِ مجیبیہ کے سجادہ نشیں بنے۔
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۰ء [2] شاہ ابو الحسن فردؔ پھلواروی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’حیاتِ فردؔ، آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۲۷۴۔ ۲۷۶)، تذکرۃ الصالحین (ص: ۱۶۷۔۱۶۹)، نزہۃ الخواطر (ص: ۸۹۱، ۸۹۲)، مولانا شاہ عین الحق پھلواروی۔ احوال و آثار (ص: ۱۱،۱۲)، تذکرہ علمائے بہار (۱/۳۱)