کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 225
میں تعزیتی شذرہ لکھا تھا، جس سے مولانا کے علمی مقام و مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذیل میں اسے درج کیا جاتا ہے: ’’جماعت اہلِ حدیث کا ایک بڑا نقصان ہمارے ناظرین بہت کم جانتے ہوں گے کہ پھلواری میں بھی اہلِ حدیث کے ایک بہت بڑے عالم رہتے تھے جن کا نام تھا مولانا حکیم علی نعمت صاحب۔ آپ جناب شاہ محمد عین الحق صاحب پھلواروی کے استادِ مکرم تھے، گو مُسن تھے مگر ہمت میں جوان۔ ایک دفعہ جلسہ کھگول میں طاعون کے ذکر پر آپ کو یہ فرماتے ہوئے میں نے خود سنا تھا کہ طاعون کا دورہ پچاس ساٹھ سال کا ہوا کرتا ہے۔ ہماری زندگی میں تو جاتا نہیں بلکہ ہماری موت بھی اسی سے ہوگی۔ اس وقت تو یہ کلام معمولی سمجھا تھا۔ آہ! آج ہم اس کو حرف بحرف پورا پاتے ہیں ۔ جناب مولانا شاہ محمد سلیمان صاحب پھلواروی اطلاع دیتے ہیں : ’’میرے محب مخلص السلام علیکم۔ نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ لکھتا ہوں کہ اس وقت اخی معظمی مولانا علی نعمت صاحب پھلواروی بعارضۂ طاعون غریقِ رحمت ہو گئے، إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون۔ افسوس ہے کہ اب ہمارے صوبہ بہار سے قدیم علمی یادگار کھو گئی اور کتبِ درسیہ کا کوئی محقق مدرس باقی نہ رہا۔ برادران اہلِ حدیث غائبانہ جنازہ پڑھیں اور دعائے مغفرت کریں ۔ (محمد سلیمان)‘‘ ہم اپنے احباب پھلواری کو عموماً اور جناب شاہ عین الحق صاحب کو خصوصاً اُون آیات کی طرف توجہ دلاتے ہیں جن کی طرف وہ بارہا لوگوں کو خود توجہ دلاچکے ہوں گے: {لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ }، {كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ } آہ! پھلواری تو بھی چند دنوں سے کیسی بد نصیب ہو رہی ہے کہ تیرے اندر سے نوجوان (حسن میاں ) [1] اور بوڑھے (مولانا مرحوم) دونوں قسم کے اہلِ علم اُٹھ گئے۔ سچ تو یہ ہے
[1] نوجوان حسن میاں ، شاہ محمد سلیمان پھلواروی کے جواں سال عالم و فاضل صاحبزادے تھے، جنھوں نے مولانا شاہ علی نعمت کی وفات سے چند دن قبل ہی وفات پائی تھی، یہاں اسی طرف اشارہ ہے۔