کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 224
مولانا شاہ علی نعمت جید عالم تھے اور کامل طبیب بھی، لیکن مشغلۂ طب میں زیادہ انہماک نہ تھا۔ کتب بینی بہت کرتے۔ بجز میرے گھر کے اور کسی کے ہاں شاذ و نادر ہی جایا کرتے تھے۔ حضرات والد ماجد (شاہ محمد سلیمان پھلواروی) سے باوجودِ اختلاف مسلک کے، بے حد محبت اور قوی مراسم تھے۔ ہر دوسرے تیسرے روز آ تے جاتے اور ہمیشہ علمی و ادبی مباحث ہوا کرتے تھے۔ جب تشریف لاتے تو چائے ضرور بنتی تھی۔ ان کی نورانی صورت مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ سبز رنگ کی قبہ نما مخملی کلاہ، سفید داڑھی، بہت پاور فل عینک، ذرا نیچا کرتہ اور شرعی پاجامہ، ہاتھ میں بڑا رومال، آخر عمر میں تسبیح بھی رکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ بدعت بڑی اچھی ہے، کیونکہ جب ہاتھ میں ہو تو کچھ نہ کچھ اللہ کا ذکر ہو ہی جاتا ہے۔ بعض اوقات راستہ چلتے کوئی مضمون سننے میں ایسا انہماک ہوتا تھا کہ راستے میں کوئی شخص ملا، اس نے سلام کیا اور مولانا کو کوئی علم نہ ہوا۔ دس بیس قدم آگے چلنے کے بعد خیال آیا کہ کسی نے سلام کیا تھا۔ مڑ کر دیکھا۔ اگر وہ ہوا تو چلائے کہ بھئی وعلیکم السلام، معاف کرنا، میں کسی اور خیال میں تھا، اور سب خیریت ہے نا؟ گفتگو ذرا ناک سے کرتے تھے۔ ہمارے ہم جولی آپس میں ان کی گفتگو کی نقل کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا شاہ علی نعمت صاحب کے مکان سے دو قدم ایک چھوٹی سی مسجد تھی، جو اب بالکل ویران ہے۔ مولانا اسی میں پنجگانہ نماز ادا کرتے تھے۔ اکثر خود ہی اذان بھی کہتے تھے۔ مسجد بہت مختصر تھی اور آپ کے مقتدی بھی صرف چند ہوتے تھے۔ اکثر تنہا ہی نماز ادا کر کے گھر واپس آ جاتے تھے۔ جمعے کی نماز ہمیشہ پھلواری کی جامع مسجد میں ادا کرتے تھے۔ حضرت شاہ عین الحق صاحب بھی ہمیشہ اسی مسجد میں جمعہ پڑھتے تھے اور پھلواری کے بیشتر علماء اسی میں آج تک جمعہ ادا کرتے ہیں ۔‘‘[1] مولانا ثناء اللہ امرتسری کا تعزیتی شذرہ: مولانا شاہ علی نعمت کی وفات پر مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر)
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۰ء