کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 222
شعر و ادب:
مولانا کو شعر و ادب میں بھی مرتبۂ کمال حاصل تھا۔ فوزؔ تخلص فرماتے تھے۔ سورت فاتحہ کی منظوم تفسیر لکھی تھی۔ علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی نے اپنی مشہور کتاب ’’غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود‘‘[1] میں اور مولانا حکیم فضل حسین مظفر پوری نے ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘[2] میں مولانا کے اشعار در مدح سیّد نذیر حسین دہلوی نقل کیے ہیں ، جن سے مولانا کی غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ شمس الحق نے شاہ علی نعمت کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
’’الفاضل المتفطن، الأدیب الماہر المولوي علي نعمت الفلواروي‘‘[3]
تصانیف:
مولانا نے دینی، علمی، ادبی موضوعات پر لکھا۔ معقول اور منقول دونوں کو حیطۂ تحریر میں لائے۔ نظم میں بھی لکھا اور نثر میں بھی۔ یہ تمام کتابیں مولانا کے تبحرِ علمی کی شاہد ہیں ۔ افسوس کہ مولانا کی بیشتر کتابیں مرحلۂ طباعت سے نہ گزر سکیں ۔ کئی کتابوں کے مسودات ضائع ہو گئے اور کئی اب بھی مخطوطات کی شکل میں منتظرِ طباعت ہیں ۔ تاہم ہمیں مولانا کی جن کتابوں سے آگاہی ہو سکی، ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
1 ’’الدر المنتقد في نظم المعتقد‘‘: مطبع انوار محمدی لکھنؤ سے ۱۳۰۱ھ میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۲۲۔
2 ’’معیار الافکار‘‘: مولانا نے فنِ منطق میں یہ کتاب لکھی ہے۔ کتاب ۱۱ فصلوں پر منقسم ہے۔ اس کا مخطوطہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں محفوظ ہے۔
3 ’’شرح اسلم در علم منطق‘‘: مولانا سخاوت علی جون پوری نے علمِ منطق پر ایک نہایت مختصر مگر
جامع رسالہ بعنوان ’’اسلم‘‘ لکھا تھا۔ مولانا شاہ علی نعمت نے اس رسالے کی شرح لکھی تھی۔
[1] غایۃ المقصود (۱/۱۴، ۱۵)
[2] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۳۵۳، ۳۵۵)
[3] غایۃ المقصود (۱/۱۴)