کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 221
علم و فضل: شاہ علی نعمت معقولات و منقولات کے ماہر، رفیع القدر فقیہ، عالی مرتبت محدث، بلند پایہ شاعر اور سریع الاثر واعظ تھے۔ تقویٰ و تدین میں بھی نمایاں تھے۔ محدث شہیر علامہ شمس الحق ڈیانوی نے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود‘‘ میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی کے طبقۂ اولیٰ کے تلامذہ میں ان کا شمار کیا ہے۔[1] مولانا حکیم عبد الحی حسنی، مولانا علی نعمت کے شعارِ عمل بالحدیث اور اوصافِ حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : ’’کان یعمل ویعتقد بالحدیث الشریف، و لا یقلد أحداً من الأئمۃ، لقیتہ بپھلواری فوجدتہ رجلاً بشوشاً، طیب النفس، کریم الأخلاق‘‘[2] ’’آپ کا عمل اور اعتقاد حدیث شریف کے مطابق تھا، ائمہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے۔ میں نے پھلواری میں ان سے ملاقات کی تو انھیں مردِ خوش خلق، پاکیزہ نفس اور عمدہ اخلاق کا حامل پایا۔‘‘ ڈاکٹر خواجہ افضل امام لکھتے ہیں : ’’وہ نہایت (جید) عالم اور طبیبِ حاذق تھے۔ عربی و فارسی میں مختلف مباحثِ علمیہ پر فاضلانہ رسالے مرتب کیے جن میں سے کچھ ہنوز خانقاہِ سلیمانیہ پھلواری شریف میں محفوظ ہیں ۔‘‘[3] مولانا حکیم محمد شعیب نیّرؔ پھلواروی رقمطراز ہیں : ’’آپ بہت ذہین و وسیع النظر عالم تھے، بعض علمی یادگاریں اب تک موجود ہیں ۔ شاعر تھے، سورۂ فاتحہ کی منظوم تفسیر لکھی تھی۔ عربی ادب سے خاص مناسبت تھی۔ تمام عمر درس و تدریس اور مشغلۂ طبابت میں بسر کی۔‘‘[4]
[1] غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود (۱/۱۴) [2] نزہۃ الخواطر (ص: ۱۳۱۳) [3] دیوانِ فائز (ص: ۴۵) [4] آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۲۹۲، ۲۹۳)