کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 220
شاہ عین الحق کے حقیقی بھانجے شاہ محمد جعفر پھلواروی لکھتے ہیں :
’’سجادگی کے بعد اکثر کتابیں مولانا علی نعمت صاحب پھلواروی سے پڑھیں ۔ مولانا علی نعمت پکے اہلِ حدیث تھے۔ رشتے میں میرے خالو تھے۔ ان کی تعلیم نے شاہ صاحب کے خیالات میں ایک تموّج پیدا کر دیا۔ آخر ایک دن چپکے سے پھلواری کی گدی چھوڑ کر چل دیے۔‘‘[1]
الغرض یہ مولانا شاہ علی نعمت ہی کے علمی و فکری اثرات اور فیضِ صحبت کا نتیجہ تھا کہ مولانا شاہ عین الحق نے مسلکِ اہلِ حدیث اختیار کیا۔
علامہ تمنا عمادی پر شاہ علی نعمت کے فکری اثرات:
علامہ تمنا عمادی بھی شاہ علی نعمت کے تلمیذِ رشید تھے۔ گو علامہ تمنا نے مسلکِ اہلِ حدیث اختیار نہیں کیا، بلکہ ان کے شذوذ و تفردات نے علمی دنیا میں بڑی ہلچل بھی پیدا کی، لیکن یہ بھی حسنِ اتفاق ہے کہ انھوں نے بھی خانقاہِ منہاجیہ پھلواری کی تولّیت ترک کر دی تھی اور نظامِ خانقاہیت سے اپنی پُرزور بیزاری کا اظہار کیا تھا۔ کیا بعید کہ اس کے پسِ پردہ محرکات میں بھی کہیں شاہ علی نعمت ہی کے فکری اثرات کار فرما رہے ہوں ۔ علامہ تمنا نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے:
’’والد مرحوم کی وفات کے بعد خصوصاً اس وقت جب میں سب کچھ بھول چکا تھا اور اپنی دوبارہ کھوئی ہوئی دولتِ علم کو واپس لانے اور دوبارہ حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوا، اس وقت سے جب تک میرے سنجھلے خالو مولانا حکیم علی نعمت رحمتہ اللہ زندہ رہے اور مولانا شاہ محمد سلیمان رحمتہ اللہ زندہ رہے، ان دونوں کی صحبت میں برابر بیٹھتا اور طرح طرح سے ان دونوں سے استفادے کیا کرتا، بلکہ بلا ارادہ استفادہ ان بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے علمی فوائد حاصل ہوتے رہتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ والد مرحوم کی وفات کے بعد اگر مجھ کو علم کسی سے حاصل ہوا تو انہی دونوں بزرگوں سے۔‘‘[2]
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۱۲ اکتوبر ۱۹۵۰ء
[2] ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ (کراچی)