کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 219
مدرسہ چشمۂ رحمت غازی پور میں علامہ کبیر حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری سے کی، جب کہ حدیث کی اعلیٰ تعلیم شیخ الکل السید الامام نذیر حسین محدث دہلوی سے دہلی میں حاصل کی اور وہیں طب کی تحصیل بھی کی۔ اس کے بعد بھوپال جا کر نواب صدیق حسن خاں سے بھی مستفید ہوئے اور حدیث کی اجازت لی۔
تکمیلِ علم کے بعد:
علومِ شرعیہ کی تحصیل سے فراغت کے بعد درس و افادہ کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ طبابت کا شغل بھی اختیار کیا اور پوری زندگی اسے جاری رکھا۔ راہِ تصوف سے آئی ہوئی بدعات و خرافات کے رد میں بھی موصوف کی خدمات بھی قابلِ قدر ہیں ۔
حلقۂ درس:
مولانا کا شمار پھلواری کے کبار مدرسین میں ہوتا تھا۔ حلقۂ درس بھی خاصا وسیع تھا۔ طلابِ علم کی ایک بڑی جماعت نے استفادہ کیا۔ افسوس ہمیں تلامذہ و مستفیدین میں سے چند ہی ناموں سے آگاہی ہو سکی: مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا شاہ حسن میاں پھلواروی، علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی، حافظ انور علی مونگیری، مولانا حکیم ابو حبیب دیسنوی (برادرِ اکبر علامہ سلیمان ندوی)، حافظ پیر محمد دانا پوری وغیرہم شاہ علی نعمت کی دبستانِ علمی کے اہم رکن تھے۔
شاہ عین الحق پر شاہ علی نعمت کے فکری اثرات:
شاہ عین الحق مرحوم، پھلواری کی سب سے بڑی خانقاہ ’’خانقاہِ مجیبیہ‘‘ کے سجادہ نشیں تھے، مسندِ سجادگی پر رونق افروز ہونے کے بعد علمِ حدیث کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے۔ چنانچہ خانقاہ ہی میں مولانا شاہ علی نعمت سے، جو آبائی رشتے کے اعتبار سے شاہ عین الحق کے بھتیجے تھے، کتبِ حدیث کی تحصیل کی۔ اس علم و اخذ کا مبارک نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا شاہ عین الحق تصوف اور خانقاہیت سے بیزار ہو گئے اور بالآخر ترکِ سجادگی پر مجبور ہوئے۔ مولانا حکیم محمد شعیب نیرؔ پھلواروی لکھتے ہیں :
’’شاہ عین الحق علیہ الرحمۃ استاذ کی تعلیم سے متاثر ہوئے اور حنفی مسلک کو چھوڑ کر غیر مقلد ہو گئے۔‘‘[1]
[1] آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۲۸۲)