کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 216
والد سے کسبِ علم کیا۔ جس زمانے میں امیر المجاہدین سیّد احمد شہید اور شاہ محمد اسماعیل شہید سفرِ حج کے لیے تبلیغی دورے کرتے ہوئے عظیم آباد پہنچے تو اسی سلسلے میں پھلواری بھی تشریف لائے، اس وقت شاہ نعمت اللہ خانقاہِ مجیبیہ کے سجادہ تھے۔ شاہ نعمت اللہ کے بڑے فرزند شاہ ابو الحسن فردؔ پھلواروی نے ان مجاہدین کی شاندار ضیافت کی۔ سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید علمائے پھلواری کے فضل و کمال سے متاثر ہوئے اور اس خانقاہ کو بیشتر مروجہ بدعات سے پاک اور ارضِ ہند کے دیگر خانقاہوں کے مقابلے میں بسا غنیمت قرار دیا۔شاہ نعمت کی وفات ۲۹ شعبان المعظم ۱۲۴۷ھ کو ہوئی۔ شاہ نعمت اللہ کو اللہ نے سات فرزند اور دو بیٹیاں عطا کیں ۔ تمام فرزند علم و فضل سے آراستہ اپنے زمانے کے جید علما میں سے تھے۔ اسمائے گرامی حسبِ ذیل ہیں : شاہ ابو الحسن فردؔ، شاہ ابو تراب آشناؔ، مولانا محمد امام جنونؔ، شاہ ابو الحیات عجزؔ، مولانا محمد قادری، مولانا علی سجاد اور شاہ محمد حسین۔[1]
پھلواری کے اہلِ حدیث علماء مولانا شاہ علی نعمت اور شاہ عین الحق، شاہ نعمت اللہ ہی کے احفاد میں سے ہیں ۔
پھلواری میں تحریکِ اہلِ حدیث:
پھلواری میں تحریکِ اہلِ حدیث کی تخم ریزی تو شاہ اسماعیل شہید کر گئے تھے، البتہ جامد کا زور خانقاہِ مجیبیہ کے ایک سجادہ شاہ احمد حبیب نصرؔ پھلواروی نے توڑنا شروع کر دیا تھا۔ تاہم معروف اصطلاح میں پھلواری کے پہلے اہلِ حدیث عالم مولانا شاہ علی نعمت پھلواروی تھے جنھوں نے حافظ عبداللہ غازی پوری، نواب صدیق حسن خاں اور سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے اخذِ علم کیا۔ انھیں کے فیضِ صحبت سے خانقاہِ مجیبیہ کے سجادہ نشیں شاہ عین الحق بن احمد حبیب نصرؔ نے مسلکِ اہلِ حدیث اختیار کیا اور ترکِ سجادگی کی۔ شاہ عین الحق کے داماد شاہ محمد ہارون پھلواروی میں اہلِ حدیث فکر کے مبلغ اور داعی رہے۔ اس کے بعد سے آج تک پھلواری میں مسلکِ اہلِ حدیث قائم ہے۔
[1] شاہ نعمت اللہ پھلواروی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۲۳۹۔ ۲۶۴)، تذکرۃ الصالحین (۱۶۲۔ ۱۶۶)، سیرت پیر مجیب (ص: ۳۱۷۔۳۲۸)