کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 215
امیر عطاء اللہ جعفری: امیر عطاء اللہ کو حکومتی مناصب ملے۔ وہ شیر شاہ سوری اور اس کے فرزند سلیم شاہ سوری کے دربار سے بھی منسلک رہے اور ان کے بعد مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں نے بھی ان کی قدر افزائی کی۔ تاہم ہمایوں کے بعد پھلواری واپس آگئے۔ پھلواری کی مشہور اور قدیم ترین سنگی مسجد امیر عطاء اللہ ہی کی بنا کردہ ہے۔ ۲۱ جمادی الاخریٰ ۹۶۴ھ کو امیر عطاء اللہ کی وفات ہوئی۔[1] ان کی نسل میں اللہ نے بڑی برکت دی اور بڑے بڑے مشاہیر علما پیدا ہوئے، جن میں ایک شاہ مجیب اللہ قادری پھلواروی ہیں ۔ شاہ مجیب اللہ جعفری پھلواروی: شاہ مجیب اللہ کا سلسلۂ نسب امیر عطاء اللہ تک حسبِ ذیل ہے: ’’شاہ مجیب اللہ بن ظہور اللہ بن کبیر الدین بن رکن الدین بن محمد حسین بن امیر عطاء اللہ جعفری پھلواروی۔‘‘ [2] شاہ مجیب اللہ کی ولادت ۱۱ ربیع الثانی ۱۰۹۸ھ اور بعض روایات کے مطابق ۱۰۹۵ھ میں ہوئی۔ دس برس تک اپنے پھوپھی زاد بھائی خواجہ عماد الدین پھلواروی کے حلقۂ فیض و افاضہ میں رہے، پھر بنارس میں مولانا سیّد وارث رسول نما بنارسی سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی۔ مولانا وارث رسول نما علمِ حدیث میں شیخ محمد حیات محدث سندھی کے شاگرد تھے۔ شاہ مجیب اللہ کا شمار بارھویں صدی ہجری کے کبار علماء و فقہاء میں ہوتا ہے۔ ان کی وفات ۲۰ جمادی الاخریٰ ۱۱۹۱ھ میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ نعمت اللہ ان کے جانشین بنے۔[3] شاہ نعمت اللہ جعفری پھلواروی: شاہ نعمت اللہ کی ولادت ۴ محرم الحرام ۱۱۶۰ھ میں ہوئی۔ مولانا وحید الحق پھلواروی اور اپنے
[1] امیر عطاء اللہ کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’آثاراتِ پھلواری شریف‘‘ (ص ۳۰، ۳۱)، سیرت پیر مجیب (ص:۱۴۔۲۰) [2] آثاراتِ پھلواری شریف (ص ۱۲۴) [3] شاہ مجیب اللہ پھلواروی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: سیرت پیر مجیب، نزہۃ الخواطر (۷۹۲، ۷۹۳)، آثاراتِ پھلواری شریف (ص: ۱۲۴۔ ۱۲۶، ۱۷۷۔۱۹۰، ۲۳۴، ۲۳۸)، تذکرۃ الصالحین (۱۰۸، ۱۱۲)، فقہائے ہند (۵/۸۳۵)، شرفاء کی نگری (۱/ ۲۹۳)