کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 213
مہدانوی ان کے رفیقِ سفر تھے۔
مولانا بلند پایہ شاعر تھے۔ فخرؔ تخلص تھا۔ تاریخ گوئی میں تو انھیں مرتبہ کمال حاصل تھا۔ اپنے معاصر اہلِ حدیث علما کی وفات پر متعدد تاریخیں کہی ہیں جو ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں گاہے گاہے شائع ہوتی رہیں ۔’’کلیاتِ فخر‘‘ میں یہ تمام تواریخ جمع ہوگئی ہیں ۔
اپنے عالی قدر استاد حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی وفات پر بھی متعدد تاریخیں کہیں : ’’آہ گورِ بلند بخت‘‘، ’’داخلِ جنتِ کبیر‘‘، ’’دار القرار بیکس یافت‘‘، ’’مالکِ گلشنِ جناں گشتہ‘‘ اور ’’آہ قطبِ دہر استادِ حدیث‘‘ سے میاں صاحب کی سالِ وفات ۱۳۲۰ھ نکالی۔[1]
’’کلیاتِ فخر‘‘ سلمانی پریس پٹنہ سے ۱۳۴۴ھ میں طبع ہوا۔ صفحات کی مجموعی تعداد ۴۰۰ ہے۔
مولانا حکیم محمد شریف فخرؔ نے ۱۳۵۰ھ/ ۲۸ ستمبر ۱۹۳۱ء کو مہدانواں میں وفات پائی اور قبرستان احاطہ قطب سالار (بڑی مسجد کے پچھم )میں مدفون ہوئے۔[2]
[1] کلیاتِ فخرؔ (ص: ۹۹۔۱۰۱)
[2] مولانا حکیم محمد شریف فخرؔ مہدانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: کلیاتِ فخر، تذکرہ مہدانواں (ص: ۷۶ تا ۷۹)، تذکرہ علمائے بہار(ج۲، ص ۱۰۷)