کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 210
مولانا محمد ابراہیم اعظم بیا پوری
(وفات: ۱۹۲۲ء)
مولانا محمد ابراہیم اعظمؔ بن حاجی پیر علی بیا پوری اپنے عہد کے بلند پایہ عالم و مدرس تھے۔ بیاپور میں پیدا ہوئے۔[1] بیا پور مہدانواں سے متصل چھوٹا قصبہ ہے۔ مولانا نے درسِ نظامی کی تکمیل ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ کان پور سے کی۔ وہیں شعر و شاعری سے رغبت پیدا ہوئی۔ نفیسؔ کان پوری سے شاعری میں اصلاح لی اور ان سے رشتۂ تلمذ استوار کیا۔ اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے دہلی تشریف لے گئے جہاں سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے اخذِ علم کیا۔
مولانا عربی و فارسی کے جید عالم تھے۔ فنِ شاعری میں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ کہنہ مشق صاحبِ دیوان شاعر تھے۔شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کی کتاب ’’علاماتِ قیامت‘‘ کا سلیس اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ اپنے دور میں بہت مقبول ہوا۔
مولانا نے تدریس کی ذمے داریاں بھی نبھائیں ۔ آخری برسوں میں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں مسلسل تین برس شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔ مولانا نے اپنی زندگی کا طویل حصہ داناپور میں گزارا، اسی بنا پر ان کے نام کے ساتھ ’’دانا پوری‘‘ کی صفتِ نسبتی بھی لکھی جاتی ہے۔
۱۹۲۲ء میں اس جلیل القدر عالم و مدرس کی وفات ہوئی۔ ڈاکٹر شاہد اقبال اور مولانا ابو الکلام قاسمی نے مولانا کا سنۂ وفات ۱۹۴۵ء لکھا ہے،[2] جو درست نہیں ۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ۷ جولائی
[1] ڈاکٹر شاہد اقبال نے لکھا ہے کہ مولانا کی ولادت ۱۲۹۷ھ بمطابق ۱۸۸۰ء میں ہوئی، (ملاحظہ ہو: ’’تذکرہ مہدانواں ‘‘ ص: ۶۳)۔ ہمارے خیال سے یہ محلِ نظر ہے، ۱۹۲۲ء میں مولانا کی وفات ہوئی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری نے خبرِ وفات دیتے ہوئے انھیں ’’ مسن عالم‘‘ لکھا ہے۔ ۱۸۸۰ء کے مطابق ان کی عمرِ حیات کی مدت صرف ۴۲ سال بنتی ہے جس پر ’’مسن‘‘ (معمر، عمر رسیدہ) کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
[2] ’’تذکرہ مہدانواں ‘‘ (ص: ۶۳)، ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ (۲/۲۵)