کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 206
ڈاکٹر عبد الواسع نے اپنے تحقیقی مقالے ’’بہار میں اردو سوانح نگاری کا آغاز و ارتقاء‘‘ میں اس کتاب کے اسلوبِ تصنیف اور فن سوانح نگاری میں اس کی اہمیت پر خصوصیت کے ساتھ زور دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس سوانح عمری میں سوانح نگار نے نہ تو مدحیہ انداز اختیار کیا ہے اور نہ ہر بات کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ہے، بلکہ صاحبِ سوانح کے حالات اس کی پیدایش سے لے کر انتقال کرنے تک بہت ہی تسلسل سے پیش کیے ہیں ۔ زبان بھی صاف ہے اورسوانح نگاری کے مناسب ہے، مذہبی سوانح عمریوں میں اس کو ممتاز جگہ ملنی چاہیے۔‘‘[1] 2 ’’الصوفیۃ و التصوف‘‘: اس کتاب کا ذکر خود مولانا نے اپنی کتاب ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’الصوفیۃ و التصوف‘‘ ایک مستقل رسالہ ہمارا ہے، جس میں تصوف سے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ شائقین ناظرین اس رسالے کے ذریعے سے ہر مدعی تصوف کو پرکھ سکتے ہیں کہ فی الواقع وہ صوفی ہے یا نہیں ۔‘‘[2] مولانا کے اندازِ تحریر سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ کتاب ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ کی تالیف سے قبل طبع ہو چکی تھی، تاہم ہماری نظر سے نہیں گزری۔ 3 ’’تمدنِ عرب اور حدیثِ افک‘‘: اس میں مشہور فرانسیسی مستشرق موسیو لیبان کی کتاب ’’تمدنِ عرب‘‘ کے اس حصے کا مدلل جواب دیا گیا ہے جس میں حدیثِ افک کے سلسلے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ رسالہ ’’تاج‘‘ (بانکی پور، پٹنہ) کے تبصرہ نگار نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۲ء کی اشاعت میں کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’ہماری رائے ہے ایسی تصانیف ترجمہ ہو کر عرب میں بھیجی جائیں ۔‘‘[3]
[1] بحوالہ ’’رموزِ تحقیق‘‘ (ص:۷۵) [2] ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ (ص: ۱۲۲) [3] ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک‘‘ (ص: ۶۸)