کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 205
تشریف لے گئے، جہاں مسند الوقت شیخ الکل سیّد میاں نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی سے کتبِ حدیث و تفسیر پڑھیں ۔ دہلی ہی میں حکیم عبد المجید دہلوی سے علمِ طب کی تحصیل کی۔
تکمیلِ علم کے بعد:
کسبِ علم کے بعد طبابت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور بہار کے جید اطبا میں شمار کیے گئے۔ مظفر پور میں مستقل رہایش تھی اور یہیں مشغلۂ طبابت بھی جاری تھا۔ قلم و قرطاس سے گہرا تعلق تھا۔ ہفت روزہ ’’تاج‘‘ (پٹنہ) کے مستقل مضمون نگار تھے۔
شاعری:
شعر و ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ اردو و فارسی ہر دو زبان میں فکرِ سخن فرماتے تھے۔ حشرؔ تخلص تھا۔ ایک پر اثر شعر ملاحظہ ہو:
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
تصانیف:
مولانا فضل حسین نے مختلف النوع موضوعات پر چند کتابیں لکھیں ، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
1 ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘: شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی کی سوانح عمری، جو مولانا کی مشہور ترین
تصنیف بھی ہے اور ان کی وجۂ شہرت بھی۔ یہ کتاب ۳۶۷ صفحات پر محتوی ہے۔ ’’مطبع اکبری‘‘ آگرہ سے ۱۳۲۶ھ بمطابق ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر مظفر اقبال اس کتاب سے متعلق لکھتے ہیں :
’’یہ سوانح عمری جدید اصولوں کے مطابق مرتب کی گئی ہے اور اردو کی صفِ اول کی سوانح عمریوں میں شمار کی جانے کے قابل ہے۔ زبان و بیان بھی نہایت ہی پاکیزہ ہے۔ عبارت میں روانی، صفائی، سادگی اور سلاست ہے۔‘‘[1]
[1] ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک‘‘ (ص: ۲۰۰)