کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 201
ہوتے وقت مولانا غزنوی نے پُر چشم نم دعا کی: ’’اے بارِ الٰہ اس لڑکے کو تیری امانت میں دیتے ہیں ۔‘‘ ڈاکٹر شاہد اقبال لکھتے ہیں : ’’حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا عبد الجبار امرتسری کے فیضِ صحبت اور ان کے دل سے نکلی ہوئی دعا ہی کا نتیجہ تھا کہ مولوی علی جماعت اہلِ حدیث ضلع سارن کے مقتدا رہے۔ برسوں ان کا معمول تھا کہ ہر جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں بہت ہی موثر اور موجودہ زمانے کے حسبِ حال تقریر فرمایا کرتے۔ مولوی علی نے چھپرہ جیسی جگہ میں دو مرتبہ آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کا انعقاد کیا اور کانفرنس بہت شان سے ہوئی۔‘‘[1] مولانا علی کو اپنے عہد میں سیاسی رسوخ بھی حاصل ہوا۔ بڑے بڑے سیاسی زعما ان سے ملتے اور روابط رکھتے۔ موہن داس کرم چند گاندھی، سر علی امام،بیرسٹر عبد العزیز، سر سلطان احمد وغیرہم ان سے ملنے چھپرہ آئے۔ انھیں محدثِ عصر شیخ حسین بن محسن یمانی کی میزبانی کا فخر بھی حاصل ہے۔ قلم و قرطاس سے بھی رشتہ تھا۔ مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ دو مختصر کتابوں ’’خلیق عظیم‘‘ اور ’’والعادیات‘‘ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مولانا نے ایک اہم خدمتِ قرآنی یہ انجام دی کہ قرآن کریم کا ایک جامع اشاریہ مرتب فرمایا، واللہ اعلم یہ اشاریہ طبع ہوا یا نہیں ۔ افسوس ہے کہ ان کے سنینِ ولادت و وفات سے آگاہی نہ ہو سکی۔[2] مولانا علی اصغر چھپروی: مولانا عبد الغفار نشر کے بھتیجے اور داماد مولانا علی اصغر بن عبد الستار چھپروی متکلم مزاج عالم و ادیب تھے۔ ۲۵ ذیقعد ۱۲۹۰ھ کو مہدانواں میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز حافظ نذیر حسین دہلوی سے کیا۔ اس کے بعد مولانا شریف کاشغری سے استفادہ کیا۔ مولانا عبد الغنی بلیاوی سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔
[1] ’’تذکرہ مہدانواں ‘‘ (ص: ۴۳) [2] مولانا علی جعفری مہدانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’سلیقہ‘‘ (ص: ۲۵۔ ۲۶)، ’’تذکرہ مہدانواں ‘‘ (ص: ۴۲۔ ۴۶)، ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ (۲/۱۷۶، ۱۷۷)، ’’برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن‘‘ (ص: ۳۹۷)