کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 199
حالات بھی مولانا ابراہیم نے لکھنے شروع کیے تھے، مگر افسوس نا تمام رہے۔ علمائے صادق پور اور شاہ عین الحق پھلواروی سے ربطِ خاص: مولانا عبد الغفار علمائے صادق پور کے ساتھ ان کی تحریکِ تجدید و احیائے دین میں بھی شامل تھے۔ مولانا عبد الرحیم صادق پوری سے خصوصی تعلق تھا۔ مجاہدین کو چندے کی فراہمی میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ ۱۳۱۷ھ میں جب مولانا عبد الرحیم نے پٹنہ میں مدرسہ اصلاح المسلمین قائم کیا تو مولانا عبد الغفار اس کے کبارِ مویدین میں سے ایک تھے۔ شاہ عین الحق پھلواروی نے جب خانقاہِ مجیبیہ کی سجادگی ترک کی تو مولانا عبد الغفار کی دعوت پر چھپرہ میں چلے آئے، یہیں ان کے سسرال بھی تھے۔ چھپرہ میں دورانِ اقامت میں ان دونوں بزرگوں میں گہرے مراسم قائم ہوگئے تھے۔ وفات: مولانا عبد الغفار نہایت پاکیزہ اخلاق و کردار کے مالک اور ذی علم و ذی لیاقت تھے۔ حلم، بردباری اور منکسر المزاجی طبع نیک میں رچی بسی تھی۔ ایک طویل عرصے تک چھپرہ میں مقیم رہے اور وہیں ۱۳۱۵ھ بمطابق ۲۷ اگست ۱۸۹۷ء کو صرف ۴۵ برس کی عمر میں وفات پائی۔ مولانا عبد الغفار بڑے ہر دلعزیز تھے۔ کثرتِ ازدحام کی وجہ سے نمازِ جنازہ کئی بار ادا کی گئی۔ پہلی نمازِ جنازہ مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی نے پڑھائی۔ مولانا آروی کو مولانا عبد الغفار کی وفات کا بے حد صدمہ ہوا۔ مولانا عبد الغفار کے حالات بھی مولانا آروی نے تحریر کرنا شروع کیے تھے، لیکن افسوس کہ تشنۂ تکمیل ہی رہے۔[1]
[1] مولانا عبد الغفار نشر مہدانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’سلیقہ‘‘، ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ (۱۶۹۔ ۱۷۰، ۳۴۴) ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر ۸ ستمبر ۱۹۳۳ء (نامہ نگار: ڈاکٹر احسان الٰہی علوی)، ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ (دہلی) اکتوبر ۱۹۳۴ء (مضمون نگار: مولانا عبد المالک آروی)،’’کلیاتِ فخر‘‘ (ص: ۷۳۔۷۵)، ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک‘‘ (ص: ۷۵)، ’’بیاں اپنا‘‘ (ص: ۱۷۔ ۱۹)، ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ (۱/۱۴۳)، ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) ۱۷ دسمبر ۱۹۹۹ء (مضمون نگار: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی)، ’’تذکرہ مہدانواں ‘‘ (۳۷۔۴۰، ۸۹۔۹۰)، ’’اصحابِ علم و فضل‘‘ (ص: ۲۰۸)،’’دبستانِ حدیث‘‘ (ص: ۲۴۹، ۲۵۰)، ’’تحریک ختم نبوت‘‘ (۲/۲۷۱، ۲۷۲)، حیاتِ نذیر (ص: ۱۹۹، ۲۰۰)، رموزِ تحقیق (۷۸۔۸۳)، ارضِ بہار اور مسلمان (ص: ۴۲۷، ۴۲۸)