کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 198
بجائے خریدار کی رقم واپس کر کے اس سے اپنے اور میرے والد مرحوم کے نام بیعانہ لکھوا کر دادی بوا کے قبضے میں دے دیا۔ خاندانی کتب خانہ، جو سیکڑوں عربی، فارسی اور اردو کی کتابوں پر مشتمل تھا، اپنے بڑے صاحبزادے مولوی محمد مکی صاحب کو نظر انداز کر کے بھتیجے اور داماد (میرے والد مرحوم ) کو تفویض کر دیا۔ نانا مرحوم چھپرہ کے اعزازی مجسٹریٹ بھی تھے۔ بند پالکی میں کچہری جایا کرتے تھے۔ آپ نے اگست ۱۸۹۷ء کو انتقال فرمایا۔‘‘[1] یہ اقتباس بلاشبہہ بڑی قیمتی معلومات پر محتوی ہے، جس سے مولانا کے اخلاق و کردار کا مرقع نمایاں ہوتا ہے۔ تاہم اس میں دو باتیں خلافِ واقعہ در آئی ہیں : اولاً : مولانا شاہ عین الحق نے خانقاہ مجیبیہ پھلواری کی سجادگی ضرور ترک کی، مگر ترکِ سجادگی کا سبب مولانا عبد الغفار نہیں تھے۔ ان کے ترکِ سجادگی کی تفصیلات ان کے حالات میں ملاحظہ فرمائیے جو زیرِ نظر کتاب میں موجود ہے۔ ثانیاً : مولانا عبد الغفار نے ’’صحیح بخاری‘‘ کا نہیں ، بلکہ امام بخاری کی ایک کتاب ’’الادب المفرد‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا جو ’’سلیقہ‘‘ کے نام سے طبع ہوا۔ مولانا ابراہیم آروی اور ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ سے تعلق: مولانا عبدالغفار، مولانا ابراہیم آروی کے تو گویا دستِ راست تھے۔ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ ہو یا ’’مذاکرہ علمیہ‘‘ دونوں میں مولانا عبد الغفار کی عملی تحریک و مشاورت شامل حال رہتی۔ آپس میں خط کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ اکثر انھیں منظوم خط لکھا کرتے۔جلسہ مذاکرہ علمیہ ۱۳۱۳ھ بمقام دربھنگہ کے لیے مرکب (سواری) کا بندوبست مولانا عبد الغفار ہی نے کیا تھا۔ جلسے کی روداد میں بعنوان ’’مرکب‘‘ لکھا ہے: ’’مدرسے کے متعلق اس کے قدیم محسن و سر پرست جناب مولوی محمد عبد الغفار صاحب نشر مہدانوی کی پالکی گاڑی و گھوڑا مدرسہ اور جلسہ کے مہمان وغیرہ کے لیے راحت رسان ہے۔ جناب مولانا کا مدرسہ پر یہ احسان ہے، اس کے لیے مدرسہ شکریہ کرتا ہے۔‘‘[2] مولانا عبد الغفار کی نمازِ جنازہ بھی مولانا آروی ہی نے پڑھائی تھی۔ مولانا عبد الغفار کے
[1] ’’بیاں اپنا‘‘ (ص: ۱۷۔۱۹) [2] جلسہ مذاکرہ علمیہ کا چھٹا سالانہ اجلاس بمقام دربھنگہ (ص: ۳۵)