کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 197
فرزند اور ہمارے دادا مولوی عبد الستار صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ کی پیدایش مہدانواں میں ۵ ربیع الاول ۱۲۷۰ھ کو ہوئی تھی۔ آپ اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ آپ کے گرد اکثر علمائے کرام کا مجمع رہتا تھا۔ آپ نے مسلک اہلِ حدیث اختیار کر لیا تھا اور صوبہ بہار کی جماعت اہلِ حدیث کے پیشوا اور سربراہ تھے۔ آپ ہی کی دعوت پر حضرت مولانا شاہ عین الحق مرحوم نے، جو خانقاہ پھلواری شریف، عظیم آباد پٹنہ کے موروثی سجادہ نشیں تھے، نہ صرف اپنا منصب چھوڑ کر مسلک اہلِ حدیث اختیار کر لیا تھا، بلکہ پھلواری شریف کی سکونت تک ترک کر دی اور چھپرہ سے قریب اپنی سسرال حکیم آباد، گھگھٹہ میں مستقل رہایش اختیار کرلی اور اکثر نانا مرحوم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔
’’جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں امامت اور خطبات نیز وعظ بھی فرمایا کرتے۔ صاحب گنج والی مسجد نانا مرحوم کے تعلق سے ’’وہابیوں کی مسجد‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ نانا مرحوم نے حدیث شریف کی کتاب صحیح بخاری اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے جو ’’سلیقہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ نانا مرحوم بہت فیاض اور مخیر واقع ہوئے تھے۔ کوئی سائل آپ کے دروازے سے مایوس نہیں جاتا تھا۔ ایک قریبی عزیز پر بھاری قرضہ تھا۔ ان کی جائیداد نیلام پر چڑھ گئی تھی۔ نانا نے سارا قرضہ ادا کر کے ان کی جائیداد کو نیلام ہونے سے بچا لیا۔
نانا مرحوم اپنی بیوہ بھاوج (ہماری دادی بوا)، یتیم بھتیجا (والد مرحوم ) اور بھتیجیوں کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ دادا کے انتقال کے وقت باوا جان کی عمر دس سال کے قریب تھی۔ ان کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام کیا۔ جائیداد کی نگرانی اور حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ میں نے تو اپنے ہی گھر والوں سے یہاں تک سنا ہے کہ جب کبھی ان کے ہاں کہیں سے کوئی چیز آتی تھی تو جب تک بھاوج اور ان کے بچوں کے لیے اس میں سے کچھ نہ کچھ بھجوا نہ لیتے، اپنے گھر میں کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ بھتیجے کی شادی اپنی بڑی صاحبزادی بی بی رابعہ سے کی، جن کی واحد یادگار نا چیز مولف کتاب ہذا ہے۔
پر دادا کے انتقال کے بعد ان کے ایک صاحبزادے نے کریم چک کے بنگلے اور اس سے ملحقہ زمین کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیا، لیکن نانا مرحوم نے وراثت کا دعویٰ کرنے کے