کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 196
’’سلیقہ‘‘ مطبع خلیلی آرہ سے ۱۳۰۹ھ میں طبع ہوئی اور اپنے دور میں بے حد مقبول ہوئی۔ عام گھرانوں میں بھی تہذیبِ نفس کی غرض سے بچوں کو یہ کتاب پڑھائی جاتی تھی، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ کتاب کمیاب ہو گئی۔ مولانا کے فرزند مولانا علی نے حکیم محمد سلیمان کو کتاب تلاش کرنے کے لیے کہا، بدقت تمام ایک نسخہ جناب شیخ صورت علی خیاط ساکن محلہ کریم چک سے ملا، جو مولانا عبدالغفار کے عقیدت مند تھے۔ کتاب کے اکثر درمیانی اوراق غائب تھے جن کو ازسرِ نو مولانا علی نے مرتب کر کے طبع کروایا۔ آغازِ کتاب میں حکیم محمد سلیمان نے مولانا عبد الغفار اور ان کے خانوادے سے متعلق قیمتی معلومات تحریر کیں ۔افسوس ہمیں کتاب کا یہ ایڈیشن دستیاب نہ ہو سکا۔ ’’سلیقہ‘‘ کی ایک اہم طباعت موسسۃ القدس لکھنؤ سے ۲۰۰۶ء میں ہوئی، جسے مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی نے مرتب کیا۔ آغازِ کتاب میں انھوں نے مولانا عبد الغفار اور ان کی کتاب سے متعلق اچھی معلومات تحریر کی ہیں ۔ مولانا سے متعلق ان کا سوانحی مآخذ حکیم محمد سلیمان ہی کی تحریر ہے۔
بعض حواشی و فتاوے:
مولانا ابراہیم آروی کی ’’طریق النجاۃ‘‘ کے چند مقامات پر آپ کے حواشی بھی ملتے ہیں ۔ سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کے ’’فتویٰ بابت تکفیر قادیانی‘‘ پر ان الفاظ میں تائید درج کی:
گر مسلمانی ہمیں ست کہ مرزا دارد وائے گر در پس امروز بود فردائی[1]
علی اُسید جعفری کے تاثرات:
علی اُسید جعفری، مولانا عبد الغفار کے حقیقی نواسے تھے، مولانا کے بھتیجے اور داماد مولانا علی اصغر چھپروی کے صاحبزادے تھے۔ انھوں نے اپنی خود نوشت ’’بیاں اپنا‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ اپنی خود نوشت میں انھوں نے خاندان سے متعلق قیمتی باتیں بھی تحریر کی ہیں ۔ اپنے عالی قدر نانا سے متعلق جو کچھ انھوں نے تحریر فرمایا، اس سے ان کی ذاتی زندگی کے کئی ایک اہم اور روشن پہلو نمایاں ہوتے ہیں ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں نقل کیا جائے۔ علی اسُید جعفری لکھتے ہیں :
میرے نانا مولوی عبد الغفار صاحب مرحوم پردادا مولوی اطہر حسین صاحب کے چھوٹے
[1] اگر مسلمانی وہی ہے جو مرزا (غلام قادیانی) کے پاس ہے تو پھر اس بات پر افسوس ہے کہ آج کے بعد کل بھی ہو۔‘‘