کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 195
دیا۔ اس قسم کا برتاؤ اپنے اور غیر کے ساتھ اکثر کیا کرتے۔‘‘[1]
مولانا عبد الغفار کے صاحبزادے مولانا علی کی کوششوں سے ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ کا ایک شاندار سالانہ جلسہ چھپرہ میں شعبان ۱۳۴۴ھ بمطابق مارچ ۱۹۲۶ء کو منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے میں صدارتی خطبہ بھی مولانا علی نے پڑھا تھا۔ اپنے خطبۂ صدارت میں انھوں نے بہار کے بعض اکابر اہلِ حدیث علما کا ذکر کیا اور انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ اپنے عالی قدر والد محترم سے متعلق انھوں نے فرمایا:
’’ہمارے والد جناب مولانا عبد الغفار صاحب مرحوم جن کی ذاتِ بابرکات نے تبلیغ و اشاعتِ اسلام میں خفیہ و علانیہ بے دریغ اپنے مال کو صرف کیا اور تصنیف و تالیف سے قوم کو بہرہ ور فرمایا۔‘‘[2]
الادب المفرد کا اردو ترجمہ:
مولانا ابراہیم آروی کی فرمایش پر امام بخاری کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’الادب المفرد‘‘ کا اردو ترجمہ نہایت عمدہ پیرایۂ بیان میں کیا اور اس کا نام ’’سلیقہ‘‘ رکھا۔[3] اکثر اربابِ خامہ کو یہ سہو ہوا کہ ’’سلیقہ‘‘ مولانا ابراہیم کے رشحۂ قلم کا شاہکار ہے[4] جو درست نہیں ۔
مولانا عبد المالک آروی اس ترجمے کی بابت لکھتے ہیں :
’’سلیقہ پر ایک نظر ڈالنے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے ترجمہ میں متقدمین کا اسلوب بالکل ترک کر دیا تھا۔ ان کی عبارت سلیس اور با محاورہ ہے۔ قدیم تراجم کی طرح بیان کی پیچیدگی اور انشا کی ژولیدگی نہیں پائی جاتی۔ اس میں تیرہ سو اٹھائیس حدیثیں ہیں ۔ پوری کتاب تین حصوں میں ختم ہوئی ہے۔‘‘[5]
[1] ’’سلیقہ‘‘ مرتبہ ابو سحبان ندوی (ص: ۲۳، ۲۴)
[2] ’’رواداد جلسہ اہلِ حدیث کانفرنس منعقدہ چھپرہ‘‘ (ص: ۱۱،۱۲)
[3] البتہ ’’الادب المفرد‘‘ کا پہلا اردو ترجمہ نواب صدیق حسن خان مرحوم نے کیا جو ۱۳۰۶ھ میں مطبع مفید عام آگرہ سے طبع ہوا تھا۔ (شاہد رفیق)
[4] دیکھیں : ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (۸/۵)، ’’الشیخ عبداﷲ غزنوی‘‘ (ص: ۱۳۹) مجلہ الجامعۃ السلفیۃ بنارس (عدد خاص بموتمر الدعوۃ والتعلیم ۱۹۸۰ء) ۲۴۷، ’’جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات‘‘ (ص: ۵۷) و دیگر اہلِ قلم۔
[5] ماہنامہ ’’جامعہ‘‘ دہلی اکتوبر ۱۹۳۴ء