کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 194
صاحب دربھنگوی و مولانا ابو بکر صاحب جونپوری و مولانا عبد التواب صاحب و مولانا یوسف صاحب شمس فیض آبادی مدظلہم و دیگر علمائے اطراف تشریف لائے تھے۔‘‘[1] اس کے بعد نامہ نگار نے متولی صاحبان سے اختلافات کا ذکر کیا ہے جس کے نتیجے میں نوبت مقدمے بازی تک جا پہنچی تھی۔ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ یہ صورتِ حال تبدیل ہوئی، صرف چند برس بعد مولانا کے صاحبزادے نے مسجد و مدرسہ کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسے کامیابی کی راہوں پر گامزن کیا۔ ۱۹۳۳ء میں منتخب ہونے والے اس مدرسے کے ایک سیکرٹری ڈاکٹر احسان الٰہی علوی مدرسہ اور جامع مسجد کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہوئے: ’’اس مدرسہ محمدیہ اور اہلِ حدیث جامع مسجد کی بنا مولوی سیّد علی صاحب رئیس کے والد مولوی عبد الغفار صاحب مرحوم رئیس چھپرہ نے صرفِ کثیر کر کے اپنے متبرک ہاتھوں سے ڈالی تھی اور مسجد کے لیے کچھ جائداد بھی وقف کر دی ہے، اسی جائداد کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات چلتے ہیں اور مدرسہ محمدیہ کے کل اخراجات جماعت اہلِ حدیث پورے کرتی ہے۔ اس مدرسہ محمدیہ میں عربی کی ’’مولوی عالم‘‘ تک تعلیم دی جاتی ہے اور جماعت اہلِ حدیث ضلع چھپرہ کا سب سے بڑا یہی مدرسہ ہے اور سب سے بڑی یہی مسجد ہے۔ خدا بانیِ مدرسہ و مسجد کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین‘‘[2] سخاوت و فیاضی: مولانا طبعاً بڑے دریا دل تھے۔ اس دریا دلی نے ان کے جذبۂ انفاق کو خوب ابھارا۔ مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی لکھتے ہیں : ’’مولانا عبد الغفار کے فیضِ کرم سے کئی مدرسے جاری تھے۔ طلبہ کی کثیر تعداد ہمیشہ آپ کے فیاض ہاتھوں سے مستفید ہوتی رہی۔ آپ کے ایک ہم زلف اس قدر مقروض ہو گئے کہ گویا کل جائداد تلف ہو چکی تھی، مگر آپ نے ان کا پورا قرض ادا کر کے جائداد محفوظ کرا
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۰ جنوری ۱۹۲۵ء [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۸ ستمبر ۱۹۳۳ء