کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 192
سیّد نذیر حسین دہلوی کے فیضِ اثر نے مولانا عبد الغفار کے فطری جوہر کو نکھار دیا۔ حج بیت اللہ کی سعادت: سیّد نذیر حسین سے مستفید ہونے کے بعد اپنے وطن مہدانواں واپس تشریف لائے اور پھر حجِ بیت اللہ کا قصد کیا۔ مولانا فضل حسین کے استفسار پر فرمایا کہ وہ حج زمانۂ تقلید میں تھا اور یہ زمانۂ اتباعِ نبوی میں ۔ مولانا عبد الغفار نے پہلا حج ۱۲۸۹ھ میں اپنے والد کے ساتھ کیا تھا۔ دوسرا حج اپنے ایک رفیق مولانا حکیم محمد شریف فخر اور ایک خادم کے ہمراہ ۱۲۹۸ھ میں کیا۔ اتباعِ سنت: مولانا عبد الغفار تصوفِ نبوی کے عامل اور اتباعِ سنتِ نبوی کے سختی سے پابند تھے۔ مولانا فضل حسین رقمطراز ہیں : ’’تصوف اور اتباعِ سنت کی جانب میلان زیادہ تھا۔ اردو اور فارسی زبان میں اکثر عمدہ اشعار بھی موزوں کرتے اور فنِ شاعری میں بہت ہی اچھا مذاق رکھتے۔ اہلِ حدیث ضلع سارن (چھپرہ) کے متفق علیہ مقتدا تھے۔‘‘[1] شاعری: اردو، عربی و فارسی میں شعر و سخن کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ نشرؔ تخلص فرماتے تھے۔ حضرت مولانا ابو محمد ابراہیم آروی کی ’’طریق النجاۃ في ترجمۃ الصحاح من المشکاۃ‘‘ پر منظوم تقریظ سپردِ قرطاس فرمائی تھی۔[2] مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی لکھتے ہیں : ’’فتوحاتِ مکیہ وغیرہ جیسی کتابوں کا ترجمہ اس روانی کے ساتھ کرتے کہ ایسا معلوم ہوتا کہ اردو عبارت پڑھ رہے ہیں ۔ شاعری کا اچھا مذاق تھا۔ اردو فارسی دونوں زبانوں میں عمدہ کلام کرتے تھے، لیکن شاعری قصداً کبھی نہیں کی۔ جو کچھ کہا، برجستہ کہا۔ کبھی بے تکلف
[1] ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ (ص: ۳۴۴) [2] طریق النجاۃ (۱/۱۲۲)