کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 191
اساتذہ کی تفصیل نہیں ملتی۔ شیخ الکل سیّد نذیر حسین کی خدمت میں : ابتدا میں غیر اہلِ حدیث تھے، حتی کہ اہلِ حدیث پر کھلے عام تبرا بھی کیا کرتے تھے۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد تک یہی حالت تھی۔ اسی زمانۂ تقلید میں حج بھی کیا۔ تقریباً اِسی زمانے میں مولانا کے چچا زاد بھائی مولانا حکیم فضل حسین مہدانوی (مصنف ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘) دہلی میں سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے استفادہ کر کے وطن واپس لوٹے۔ جب دہلی سے تشریف لائے تو مولانا عبد الغفار کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ محمد اسماعیل شہید دہلوی کی تصانیف ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘، ’’عقد الجید‘‘، ’’تنویر العینین‘‘ وغیرہا بھی لیتے آئے اور مولانا کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کیں ۔ ان تصانیف کے بغور مطالعہ نے مولانا عبد الغفار کے ذہن و فکر کے سارے حجابات اٹھا دیے اور وہ خود عاملین بالحدیث کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد مولانا فضل حسین کی تحریک و تشویق پر دہلی شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی کے درسِ حدیث میں شرکت کے لیے اپنے دو رفیقوں : مولانا ابو محمد عبدالرؤف مہدانوی (جو مولانا کے چچا زاد بھائی اور سالے تھے) اور مولانا حکیم محمد شریف فخر مہدانوی کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ ان تینوں نے ایک ساتھ سیّد صاحب کے درسِ حدیث میں شرکت کی اور سندِ فراغت حاصل کی۔ یہ سنۂ ۱۲۹۵ھ کا سال تھا۔ مولانا حکیم محمد شریف فخر نے اس سفرِ دہلی سے متعلق ایک قطعۂ تاریخ لکھا ہے، فرماتے ہیں : فخر و عبد الرؤف را یکبار برد دہلی کشاں حدیث شریف رہنما گشت مولوی غفار آنکہ شیدا ز جانِ حدیث شریف فخرؔ تاریخ او بشوق تمام گشت معجز بیاں حدیث شریف ’’معجز بیاں حدیث شریف‘‘ سے سال ۱۲۹۵ھ نکلتا ہے۔[1]
[1] ’’کلیاتِ فخر‘‘ (ص: ۴۸، ۴۹) ’’حدیث پڑھنے کا شوق فخر و عبدالرؤف کو کشاں کشاں دہلی لے گیا۔ جو دل و جان سے حدیث کے شیدائی مولوی عبدالغفار کے لیے رہنما بن گیا۔ فخر! معجز بیان حدیث کے ساتھ اس کی تاریخ شوق کے ساتھ مکمل ہو گئی۔‘‘