کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 19
سارن، مظفر پور، ویشالی، دربھنگہ، سمستی پور، مدھو بنی، پورنیہ اور جھاڑ کھنڈ کے اضلاع: دیوگھر اور گڈا میں مقیم حضرت میاں صاحب دہلوی کے تلامذہ کی جہود و مساعی کا ذکرِ جمیل زیبِ قرطاس کیا ہے۔
مولف کا اسلوب یہ ہے کہ پہلے وہ متعلقہ مقام کی عمومی تاریخ اور عمل بالحدیث کے ابتدائی حالات کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے ضمن میں اس جگہ کے اولین داعیانِ توحید و سنت کا تعارف کرواتے ہیں ، پھر وہاں میاں صاحب محدث دہلوی کے تلامذہ کی خدمات و اثرات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اس اسلوب کی بدولت پڑھنے والے کو جہاں متعلقہ شخصیت کے حالات اور خدمات سے آگہی ہوتی ہے، وہاں اس شہر اور علاقے کی مسلکی تاریخ سے بھی مکمل واقفیت حاصل ہو جاتی ہے جس کی بدولت جملہ معلومات کو ذہن نشین کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اس عمدہ اسلوب اور طریقۂ تصنیف کے باعث قارئین کی دلجمعی برقرار رہتی ہے اور تاریخی معلومات بھی ان کے دل و دماغ پر اچھی طرح سے نقش ہو جاتی ہیں ۔
محترم گرامی قدر مولف نے کوشش کی ہے کہ ہر شخصیت سے متعلق اہم معلومات اور اس کی خدمات و اثرات کا پوری طرح سے احاطہ کیا جائے، اسی لیے جہاں مستند مآخذ سے تفصیلات مل پائیں اسے طوالت و اختصار سے قطع نظر باحوالہ ذکر کر دیا ہے۔ اسی بنا پر ہمیں بعض تراجم میں قدرے تفصیل اور کہیں اختصار نظر آتا ہے۔ کتاب میں علامہ عبدالعزیز رحیم آبادی، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا ابو محمد ابراہیم آروی، مولانا تلطف حسین عظیم آبادی اور مولانا شاہ عین الحق پھلواروی کے سوانح قدرے تفصیلی ہیں ۔ مولف نے ہر شخصیت کے ابتدائی حالات، اساتذہ، نامور تلامذہ، علمی مساعی، تدریسی جہود اور تصنیفی خدمات کے ساتھ ساتھ اس کے ملکی و ملی کارناموں پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے اور جہاں سے بھی متعلقہ شخصیت کے بارے میں کوئی اہم بات معلوم ہوئی، اسے حوالۂ قرطاس کر دیا ہے۔
اس کتاب میں کئی اکابر علما مثلاً: مولانا حافظ ابو محمد عبد اللہ چھپروی ، مولانا حکیم عبد الغفور رمضان پوری، مولانا سید محمد اسحاق بڈوسری گیاوی وغیرہم پہلی بار اپنی حیات و خدمات کے بھرپور تعارف کے ساتھ جلوہ گر ہو رہے ہیں جن کی قبل ازیں ہماری کتبِ تذکرہ و تاریخ میں کوئی مثال نہیں تھی۔
اﷲ تعالیٰ مولفِ کتاب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے بڑی محنت اور عمدہ اسلوب میں اس کتاب کو مرتب کیا اور اسے مستند معلومات سے مزین کیا ہے۔ اس کتاب کے مولف جناب محمد