کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 182
کی کہ وہ ان سے بیعت ہونا چاہتے ہیں ۔ مولانا محمد علی مونگیری اس وقت لکھنؤ میں تشریف فرما تھے، مولانا عبد الباری لکھنؤ گئے اور ان سے بیعت کی۔
وفات:
۱۳۱۸ھ ہی میں عظیم آباد کے اس مایہ ناز فلسفی مزاج عالم و طبیب نے وفات پائی۔[1]
[1] علامہ حکیم عبد الباری نگرنہسوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’یادگارِ گوہری‘‘ (ص: ۱۲۹)، ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ (ص: ۳۶)، ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (۱۲۵۸، ۱۲۵۹)، ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ (۱ /۱۴۴)، ’’ارضِ بہار اور مسلمان‘‘ (ص: ۴۳۳)، ’’نثر الجواھر و الدرر‘‘ (ص: ۶۱۷)