کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 181
اسکول ہے جس نے بہار میں انگریزی تعلیم کو متعارف کروایا اور اس خوبی کے ساتھ کہ اس میں دینی تعلیم کو بھی فراموش نہیں کیا گیا۔
ندوۃ العلماء، لکھنؤ:
علامہ عبد الباری ’’دار العلوم ندوۃ العلماء‘‘ لکھنو کے زبردست موید تھے۔ اس کے پہلے اجلاس منعقدہ ۱۵،۱۶،۱۷ شوال ۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۲،۲۳،۲۴ اپریل ۱۸۹۴ء میں شریک ہوئے اور اپنی تقریر میں ندو ۃ العلماء کی پر زور تائید کی۔ مولانا عبد الباری تحریک ندوۃ العلماء سے وابستہ ہوئے۔ پٹنہ میں ان کا گھر ندوۃالعلماء کا دفتر تھا۔ پٹنہ میں ندوہ کے ہونے والے جلسوں میں بھی وہ باقاعدگی سے شریک ہوتے اور اہم کردار ادا کرتے تھے۔
اپنی غفلت سے تنبیہ:
مولانا حکیم عبد الحی حسنی، حکیم عبد الباری سے متعلق ذاتی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’لقیتہ غیر مرۃ بعظیم آباد، فوجدتہ في أول رحلتي إلی تلک البلد من المتنعمین، لا یھمہ إلا الأکل و النوم، ثم وجدتہ في المرۃ الثانیۃ و الثالثۃ، کأنہ انتبہ من رقدۃ الغفلۃ، و کان یدرس القرآن الکریم کل لیل بعد صلاۃ المغرب، مائلا إلی الصلاح‘‘[1]
’’میں نے عظیم آباد میں کئی مرتبہ ان کی زیارت کی ہے، اس شہر کے پہلے سفر میں ، میں نے انھیں نعمتوں کا پروردہ پایا، انھیں سوائے کھانے اور سونے کے کوئی فکر نہیں تھا، لیکن پھر دوسری اور تیسری مرتبہ میں نے انھیں اپنی اس غفلت سے متنبہ پایا۔ وہ ہر رات نمازِ مغرب کے بعد قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے، اور دین کی طرف مائل تھے۔‘‘
مرضِ وفات اور بیعت:
مولانا عبد الباری ۱۳۱۸ھ میں مرضِ استسقاء میں مبتلا ہوئے، جو بعد ازاں ان کے لیے پیامِ اجل ثابت ہوا۔ اپنی اسی شدید بیماری میں مولانا عبد الباری نے مولانا محمد علی مونگیری سے استدعا
[1] ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ص: ۱۲۵۸)