کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 180
مولانا محمد ادریس نگرامی ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ میں ان کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’علومِ طبیہ و فلسفہ میں مہارتِ کاملہ رکھتے ہیں ۔‘‘[1] مولانا محمد زبیر ڈیانوی لکھتے ہیں : ’’المولوي عبد الباري ھو الفلسفي العلامۃ، و اللوذعي الفھامۃ، بطلیموس دھرہ، جالینوس عصرہ، إذا مس نبضا لتشخیص عارضٍ عرض أبدی من أغراض الجواھر کل غرض، حکیم لم ینظر مثلہ العیون‘‘[2] مولانا اپنے دور کے ماہر طبیب تھے۔ طب میں جو مرتبہ کمال انھیں حاصل تھا، اس کی نظیر کم ہی ملے گی۔ حکیم اسرار الحق ’’تاریخ اطبائے بہار‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’حکیم عبد الحمید پریشاں صاحب صادقپوری اور حکیم عبد الباری صاحب مرحوم اپنے فن میں ممتاز مقامات پر فائز تھے۔ ان دونوں کے طرزِ معالجہ اور اندازِ تشخیص میں کافی مماثلت تھی۔ ان دونوں حضرات کے علاج و معالجہ کے حیرت انگیز واقعات عظیم آباد کے معمر لوگوں کو اچھی طرح یاد ہیں اور مشہورِ خاص و عام ہیں ۔‘‘[3] محمڈن اینگلو عربک اسکول، پٹنہ: مولانا ولایت علی صادق پوری کے فرزند ارجمند مولانا محمد حسن ذبیحؔ نے ۱۸۸۴ء میں پٹنہ میں ایک اینگلو عربک اسکول قائم کیا، جس کا ابتدائی نام ’’مدرسۃ المسلمین‘‘ تھا، لیکن جلد ہی اس کا نام ’’محمڈن اینگلو عربک اسکول‘‘ رکھا گیا۔ اس کے پہلے جنرل سکرٹری مولانا محمد حسن ذبیح تھے۔ حکیم عبد الباری اس کے بانی اراکین میں سے تھے۔ دیگر اہم اراکین میں مولوی خدا بخش، جسٹس شرف الدین وارثی، مولانا امجد علی صادق پوری، نواب اسماعیل وغیرہم شامل تھے۔ سر علی امام بھی اسکول کی سرگرمیوں سے خصوصی دل چسپی رکھتے تھے۔[4] بہار کی تعلیمی تحریک میں اس اسکول کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ پہلا
[1] ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ (ص: ۳۶) [2] ’’یادگارِ گوہری‘‘ (ص: ۱۲۹) [3] ’’تاریخ اطبائے بہار‘‘ (ص: ۲۲۱) [4] خدا بخش لائبریری جرنل (پٹنہ)، شمارہ نمبر ۱۶۲، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۰ء