کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 18
ایک پہلو سے تعلق رکھتی ہے جس میں ان کے ۸۹ نامور تلامذہ کے حالات اور خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ حضرت میاں صاحب محدث دہلوی کی ۶۲ سالہ تعلیمی و تدریسی مدت میں اندرون و بیرون ہند ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے، لیکن صفحاتِ تاریخ میں ان میں سے بہت تھوڑے حضرات کے نام اور اعمالِ جلیلہ کا تذکرہ محفوظ رہ سکا ہے، جس کی ایک اہم وجہ ہماری کاہلی اور بے اعتنائی بھی ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں شمالی ہند کے دو صوبوں بہار اور جھاڑ کھنڈ سے تعلق رکھنے والے میاں صاحب محدث دہلوی کے ۸۹ تلامذۂ کرام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان تلامذہ کے تعارف و تذکرے میں ضمنی طور پر ۷۰ دیگر اصحابِ علم و فضل اور مشاہیرِ زمانہ کا اجمالی تذکرہ بھی اس کتاب کی زینت ہے۔ کتاب کی پہلی خوبی تو یہ ہے کہ مولف نے تاریخی معلومات اور شخصی حالات کو مستند مآخذ اور معتبر مصادر سے نقل کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے لیے انھوں نے ہر طرح کے مراجع سے استفادہ کیا ہے، جن کی اہمیت کا اندازہ آپ فہرستِ کتابیات سے لگا سکتے ہیں کہ صاحبِ تذکرہ کے حالات میں آپ کو سوانحی کتب، سفر ناموں ، ملکی اور مقامی تاریخی تذکروں اور قدیم و جدید مآخذ کے حوالے نظر آئیں گے، جس سے ایک طرف اگر صاحبِ تذکرہ کی شخصیت کو تمام پہلوؤں سے نکھارنے میں مدد ملی ہے تو دوسری طرف اسی سے کتاب کے مولف جناب تنزیل صاحب کی وسعتِ نظر اور اپنے موضوع سے لگن اور اس کی تکمیل میں کی جانے والی محنتِ شاقہ بھی عیاں ہوتی ہے۔ مولف نے اپنی اس کتاب کی تیاری میں متعدد زبانوں : اردو، عربی، انگلش، فارسی اور ترکی مصادر و مراجع سے استفادہ کیا ہے جن میں اردو مراجع کی تعداد ۲۱۹ ہے، اور عربی کی ۳۶ ، انگلش کی ۳، فارسی کی ۶ اور ترکی مآخذ کی تعداد ۳ ہے۔ علاوہ ازیں مختلف رسائل و جرائد، علمی مقالات اور بعض غیر مطبوع مصادر سے بھی مصنف نے استفادہ کیا ہے جن کی مجموعی تعداد ۳۹ ہے۔ کتابیات کی یہ کثرت اور تنوع یقینا اس کتاب کی ایک نمایاں خوبی ہے۔ زیرِ نظر کتاب کی دوسری نمایاں خوبی یہ ہے کہ مولف نے اپنی اس کتاب کو بڑی عمدگی سے مرتب کیا ہے۔ سب سے پہلے کتاب میں شمالی ہند کے دو صوبوں بہار اور جھاڑ کھنڈ کے علما کا تذکرہ کیا ہے جن میں ان اضلاع: عظیم آباد، نالندہ، آرہ، گیا، مونگیر، شیخ پورہ، بھاگل پور، مغربی چمپارن، چھپرہ،