کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 179
کسبِ علم کا آغاز:
پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ تشریف لے گئے، جہاں فاضل جلیل علامہ عبد الحی فرنگی محلی سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی اور طب کی تحصیل حکیم عبد الولی لکھنوی سے کی۔ منطق و فلسفہ پر بھی مکمل دسترس حاصل تھی، اور اس فن میں مشہور شیعہ عالم کمال الدین رضوی موہانی کے شاگرد تھے۔[1]
لکھنؤ سے حصولِ علم کے بعد دہلی کا رخ کیا، جہاں تفسیر و حدیث کی کتابیں شیخ الکل السیّد الامام نذیر حسین محدث دہلوی سے پڑھیں ۔ نیز مولانا حکیم عبد الباری کو قاضی بشیر الدین محدث قنوجی سے بھی شرفِ تلمذ حاصل تھا۔[2]
نکاح:
۱۲۸۹ھ میں حکیم عبد الباری کا نکاح علامہ کبیر شمس الحق ڈیانوی کی ہمشیرہ سے ہوا۔
علم و فضل:
علامہ حکیم عبد الباری فلسفہ و طب کے ماہر اور حدیث و فقہ کے جید عالم تھے۔ مولانا حکیم سیّد عبد الحی حسنی ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں ان کے حالات میں لکھتے ہیں :
’’کان ذکیا فطِنا، حاد الذھن، جید القریح، سریع الحفظ، برع أقرانہ في العلوم الحکمیۃ، و رزق من حسن القبول ما لم یرزق أحد من الأطباء في بلادہ غیر الشیخ عبد الحمید بن أحمد اللّٰه الصادقفوري‘‘[3]
’’وہ ذکی، فطین، تیز ذہن والے، عمدہ طبیعت کے حامل اور تیز حافظہ کے مالک تھے۔ علومِ حکمیہ میں اپنے معاصرین پر سبقت لے گئے تھے، انھیں وہ حسنِ قبولیت حاصل ہوئی جو اطبائے کرام میں سے کسی کو بھی، سوائے شیخ عبد الحمید بن احمد اللہ صادق پوری، حاصل نہیں ہوئی۔‘‘
[1] ’’تذکرۃ العلماء‘‘ (ص: ۲۹۸)
[2] ’’تذکرہ علمائے حال‘‘ (ص: ۳۶)
[3] ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ص: ۱۲۵۸)