کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 177
۱۸۸۰ء سے طبع ہوئی، تعدادِ صفحات ۲۲ ہے۔ کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ڈاکٹر مظفر اقبال لکھتے ہیں :
’’عدمِ تقلید کے جواز میں کتاب و سنت سے دلیلیں پیش کی گئی ہیں ۔ عبارت سادہ اور عام فہم ہے۔‘‘[1]
رحمتِ علیم:
5 یآأیھا الناس بتوفیق أحادیث اللباس۔
6 اھتداء الأحناف في ا قتداء أصحاب الخلاف۔
وفات:
دبستانِ نذیریہ کے اس مایہ ناز رکن، دیارِ ہند کے اس جلیل القدر عالمِ دین، رفیع المرتبت محدث و مفسر، بلند پایہ فقیہ و مدرس اور ماہرِ فلکیات و ریاضی نے ۲۰ محرم الحرام ۱۳۰۶ھ بروز جمعۃ المبارک محلہ پاتو کی باغ دیوان محلہ، عظیم آباد میں وفات پائی۔ ان کے ایک تلمیذِ خاص مولانا عبد الغنی لعل پوری نے ’’یآأیھا العلیم ادخل جنتي‘‘ سے تاریخِ وفات ۱۳۰۶ ہجری نکالی ہے۔[2]
[1] ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک‘‘ (ص: ۶۳)
[2] علامہ علیم الدین حسین نگرنہسوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’یادگارِ گوہری‘‘ (ص: ۱۲۹)، ’’آئینہ ترہت‘‘ (ص: ۱۰۵)، ’’الحیاۃ بعد المما ۃ‘‘ (ص: ۳۴۳)، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۹ء (مضمون نگار: مولانا ابو طاہر بہاری)، ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ص: ۱۳۱۴)، ’’بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک‘‘ (ص: ۶۳)، ’’نثر الجواھر و الدرر‘‘ (ص: ۹۲۵)، ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ (ص: ۱۴۱، ۱۴۲)، ’’حقیقتِ شاعری‘‘ (ص: ۳۶، ۳۷)، ’’تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی‘‘ (ج:۱، ص: ۷۷)، مجلہ صدی تقریبات مدرسہ منیر الاسلام (ص۳۵۸)، ’’ارضِ بہار اور مسلمان‘‘ (ص: ۴۲۰)، ’’عربی زبان و ادب میں علمائے بہار کا حصہ‘‘ ۱۸۵۰ء تا ۱۹۵۰ء‘‘ (مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی)۔