کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 175
میں انھوں نے ترہت کمشنری کی تاریخ بیان کی ہے۔ترہت کمشنری کا علاقہ بہار کے شمالی خطے کا احاطہ کرتا ہے۔ اپنی کتاب میں انھوں نے اس خطے سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم کا بھی ذکر کیا ہے۔ جن میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ مولانا علیم الدین کا تعلق گو کہ ترہت کمشنری سے نہیں تھا۔ مگر انھوں نے کچھ عرصہ ترہت کے علاقے پرگنہ بسارہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ اپنے علم و فضل اور اخلاق و عادات کی بنا پر جلد ہی مشہورِ اطراف و اکناف ہو گئے تھے۔ چنانچہ بابو بہاری لال فطرت بھی اپنی کتاب میں مولانا علیم الدین کا ذکر کیے بغیر نہ رہ سکے۔ لکھتے ہیں : ’’مولوی سیّد علیم الدین ساکن موضع نگرنوتھا ضلع پٹنہ حال مقامی بکھری پرگنہ بسارہ۔ مولوی صاحب بڑے عالم ہیں ۔ علم معقولات و منقولات کو بخوبی جانتے ہیں اور علمِ حدیث میں مولوی نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد ہیں ۔ آدمی شریف و نجیب، عالی خاندان ہیں ۔ اخلاقِ ظاہری ان کا بہت اچھا ہے۔ ان کے اپنے گھر کی معاش، جو ضلع پٹنہ میں ہے، تخمیناً مبلغ چار ہزار روپے سالانہ کی آمدنی سے کم نہ ہو گی۔‘‘[1] سفرِ حج و مصر: ۱۳۰۳ھ میں فریضۂ حجِ بیت اللہ ادا کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ مکہ مکرمہ میں چند ماہ قیام بھی کیا، جہاں متعدد علما و مشائخ کے ساتھ علمی صحبتیں میسر آئیں ۔ پھر عازمِ مصر ہوئے۔ مصر میں خدیو مصر سے ملاقات کی۔ خدیو مصر مولانا کے علم و فضل سے متاثر ہوئے اور شاہی مکتبے سے استفادہ کرنے کا موقع بھی دیا۔[2] تصانیف: علامہ علیم الدین حسین تصنیف و تالیف کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ کئی ایک کتابیں ان کے رشحۂ قلم سے یادگار ہیں ۔ بیشتر علمی ذخیرہ تو اب عام دسترس میں نہیں تاہم جن کتابوں سے آگہی ہوئی، ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
[1] ’’تواریخ الفطرت معروف بہ آئینہ ترہت‘‘ (ص: ۱۰۵) [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۹ء