کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 174
والے تھے۔ ایک خلقِ کثیر کو آپ سے فائدہ پہنچا۔‘‘ مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں : ’’مولوی حکیم علیم الدین حسین مرحوم نگرنہسوی بڑے علامہ، مدرس، مولف اور واعظ تھے۔‘‘[1] علامہ سیّد سلیمان ندوی خانوادۂ ابودردائی انصاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اسی خانوادے کے دوسرے بزرگ مولانا علیم الدین حسین ہیں ، جو مولانا امین اللہ صاحب کے بھائی کے پوتے تھے۔ یہ بھی مشاہیرِ عہد سے تھے۔ مفتی صدر الدین خاں دہلوی، مولانا نعمت اللہ صاحب لکھنوی اور مولانا سیّد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ متعدد کتب و رسائل ان کی یادگار ہیں ، منجملہ ان کے سلم الاخلاق (الافلاک)، اور طلاقِ ثلاثہ کی بحث میں فیصلۃ العلیم اور تفسیر سورۂ بقرہ معروف ہیں ۔‘‘[2] مولانا ابو طاہر بہاری، مولانا پر لکھے گئے اپنے سوانحی مضمون میں لکھتے ہیں : ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بڑا خیال تھا۔ شرک و بدعت کی برابر تردید فرمایا کرتے تھے۔ اشاعتِ سنت ہمہ دم ملحوظِ خاطر تھی۔ آپ کی ذات با برکات کی بدولت سیکڑوں بد عقائد کے عقائد و خیالات صحیح و درست ہو گئے۔‘‘[3] مولانا ابو عبد اللہ محمد زبیر ڈیانوی لکھتے ہیں : ’’مولانا علیم الدین حسین بن تصدق حسین بن مولانا عبید اللہ قاضی کم کرن نگرنہسوی انصاری عظیم آبادی علامۂ عصر، فہامۂ دہر تھے۔ ہزاروں کو اللہ تعالی نے ان کے علم سے فیض پہنچایا، تلامذہ آپ کے بکثرت ہیں ۔ فنِ طب میں بھی آپ بے نظیر تھے۔‘‘[4] بابو بہاری لال فطرت، بہارکے ایک صاحبِ علم مورخ تھے، ان کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ ان کی کتاب ’’آئینہ ترہت‘‘ تاریخِ بہار کے حوالے سے ایک اہم کتاب شمار کی جاتی ہے۔ اس کتاب
[1] ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ (ص: ۳۴۳) [2] ’’حقیقتِ شاعری‘‘ (ص: ۳۶، ۳۷) [3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۹ء [4] ’’یادگارِ گوہری‘‘ (ص: ۱۰۴، ۱۰۵)