کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 172
فائدہ حاصل ہوا ہے اور اللہ تعالی نے شوقِ اتباع سنت انہیں کے واسطہ سے ہم کو عطا فرمایا ہے۔ میرے رفیقِ حبیب مولوی تلطف حسین صاحب محی الدین پوری ثم نگرنہسوی نے بھی ان امور میں میری بڑی مدد کی ہے، جزاھما اللّٰه خیرا۔‘‘[1] مباحثِ علمیہ: مولانا علیم الدین دینی مسائل میں تحقیق و جستجو کے مراحل طے کرنے کے بڑی ساعی تھے۔ فقہی مسائل پر گہری نظر تھی۔ اپنے معاصر علما کے ساتھ تبادلۂ افکار و خیالات فرمایا کرتے تھے۔ دربارہ مصافحہ رخصتانہ کے مسئلے پر حضرت قاضی بشیر الدین محدث قنوجی کو مولانا علیم الدین کے نقطۂ نظر سے اختلاف تھا جس پر تحریری مباحثہ بھی ہوا۔ مولانا نگرنہسوی اثبات کے، جب کہ قاضی صاحب محدث قنوجی انکار کے مدعی تھے۔ اعترافِ فضیلت: علامہ علیم الدین اپنے عہد کے بہت بڑے عالم، مدرس و مبلغ تھے۔ ان کے رسوخِ علمی اور خدمتِ دینی کا اعتراف ان کے معاصر اصحابِ علم نے کیا۔ ان اکابرِ علم نے مولانا سے متعلق جو آرا سپردِ قرطاس کیں ، ان سے مولانا ممدوح کے علمی مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔ محدث شہیر علامہ شمس الحق ڈیانوی نے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود‘‘ میں شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی کے طبقۂ اولیٰ میں شامل تلامذۂ کرام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’والکامل اللوذعي المولوي علیم الدین حسین العظیم آبادي النجرنہسوي‘‘[2] ’’قصیدہ عظمیٰ‘‘ کی ایک عمدہ طباعت مطبع انصاری دہلی سے مولانا تلطف حسین عظیم آبادی کے اہتمام سے ۱۳۰۳ھ میں ہوئی۔ اس کے آخر میں مصنف کے حالات علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی غیر مطبوعہ تصنیف ’’تذکرۃ النبلاء‘‘ سے ماخوذ تھے۔ اس میں علامہ عظیم آبادی لکھتے ہیں : ’’للہ الحمدو المنۃ کہ حالآن در خاندان ایشان صاحب فضل و کمال موجود اند مولانا علیم الدین
[1] ’’یادگارِ گوہری‘‘ (ص: ۱۰۴، ۱۰۶) [2] غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود (۱/۱۳)