کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 171
حسین صاحب، ان چاروں حضرات نے حدیث حضرت میاں صاحب سے ایک ساتھ پڑھی ہے۔ یہ زمانہ حضرت میاں صاحب کے شباب کا تھا اور فنِ حدیث و فنِ اصول وغیرہ آپ نہایت زور شور سے پڑھاتے تھے۔‘‘[1] دہلی ہی میں آپ نے طب کی تحصیل صحت الدولہ بہادر سے کی۔ تکمیلِ علم کے بعد: دس برس تک علوم کی تحصیل کرنے کے بعد اپنے وطن مالوف کو لوٹے اور اشاعتِ دینِ حق و ترویجِ سنت الوریٰ کے لیے مستعد ہو گئے۔ اپنے عہد کے کبار علمائے ذی اکرام میں شمار کیے جاتے تھے۔ تردیدِ بدعات میں بہت زیادہ ساعی تھے۔ حلقۂ درس: مولانا کا حلقۂ درس بھی خاصا وسیع تھا، جس سے طلابِ علم کی ایک بڑی جماعت نے استفادہ کیا۔ تلامذہ و مستفیدین میں جن کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہو سکی، حسبِ ذیل ہیں : 1۔ مولانا ابو عبد الرحمن عبد اللہ پنجابی گیلانی  2۔ مولانا عبد اللہ واعظ مؤی 2۔ مولانا الٰہی بخش بڑاکری بہاری  4۔مولانا عبد الغنی لعل پوری 5۔ مولانا خدا بخش اعظم گڑھی 6۔ مولانا لطیف حسین عظیم آبادی 7۔ مولانا فیض الحق بریولوی دربھنگوی 8۔ حافظ علی اکبر ڈیانوی 9۔ مولانا نظیر حسین نگرنہسوی  10۔ مولانا نذیر الدین حسین نگرنہسوی 11۔ بیرسٹر نصیر الدین حسین نصیرؔ وعظ و تذکیر: علامہ علیم الدین کا وعظ پر از نصیحت ہوتا اور تاثیر میں انتہائی موثر ہوا کرتا تھا۔ جید علما و افاضل آپ کے وعظ سے اپنے قلب پر اثر لیا کرتے تھے۔ مشہور محدث علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں : ’’جناب مولانا علیم الدین حسین نگرنہسوی رحمہ اللہ تعالی کے وعظ و نصائح سے ہم کو بہت
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۴ مئی ۱۹۲۰ء