کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 169
مولانا غلام بدر کے صاحب زادے قاضی عبید اللہ تھے۔[1] قاضی عبید اللہ نگرنہسوی: قاضی عبید اللہ اپنے عم گرامی مولانا امین اللہ کے تلمیذِ رشید تھے۔ لائقِ تکریم استاذ نے اپنی صاحبزادی اپنے بھتیجے اور تلمیذِ رشید قاضی عبید اللہ کے حبالۂ عقد میں دے دی۔ قاضی صاحب نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جنوبی ہند کی طرف ہجرت کی، جہاں علاقہ مدراس کے اطراف میں ’’کم کرن‘‘ کے قاضی مقرر ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس ذمے داری کو نبھایا۔ تاآنکہ ۱۴ صفر ۱۲۲۳ھ کو محض ۳۷ برس کی عمر میں پیامِ اجل نے آ لیا۔[2] مولانا تصدق حسین خلاقؔ نگرنہسوی: قاضی عبیدا للہ کے صاحبزادۂ گرامی قدر مولانا تصدق حسین خلاق کی ولادت نگرنہسہ میں ہوئی۔ صرف و نحو مولوی سلطان احمد ولایتی سے الہ آباد میں پڑھی۔ منطق و حکمت اور کتبِ درسیہ کی تحصیل مفتی ولی اللہ لکھنوی سے لکھنؤ میں کی، جب کہ فنونِ ریاضیہ مولوی ابراہیم حسین لکھنوی سے اخذ کیے۔ تکمیلِ علم کے بعد مراجعت فرمائے وطن ہوئے اور سلسلۂ تدریس کا آغاز کیا۔ مولانا تصدق حسین فارسی کے بلند پایہ صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ خلاقؔ تخلص تھا۔ تصانیف میں ’’دستور القواعد‘‘، ’’دیوانِ خلاقؔ‘‘ اور ’’شرح ہدایۃ الحکمۃ‘‘ پر حاشیے کا ذکر ملتا ہے۔ مولانا کی نظم و نثر کی یہ تمام یادگاریں فارسی میں ہیں ۔ مولانا تصدق حسین نے ۸ صفر ۱۲۶۸ھ بمطابق ۱۸۵۱ء کو نگرنہسہ میں وفات پائی۔[3] مولانا تصدق حسین کے دو صاحبزادے تھے، مولانا واعظ الدین حسین اور مولانا علیم الدین
[1] مولانا غلام بدر نگرنہسوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’قصیدہ عظمیٰ‘‘ بحوالہ تذکرۃ النبلاء (ص: ۹۴) [2] قاضی عبید اللہ نگرنہسوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’قصیدہ عظمیٰ‘‘ بحوالہ تذکرۃ النبلاء (ص: ۹۴)، ’’نزہۃ الخواطر‘‘ بحوالہ تذکرۃ النبلاء (ص: ۱۰۳۷) [3] مولانا تصدق حسین خلاقؔ نگرنہسوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’قصیدہ عظمیٰ‘‘ بحوالہ تذکرۃ النبلاء،(ص: ۹۴)، ’’نزہۃ الخواطر‘‘ بحوالہ تذکرۃ النبلاء (ص: ۹۴۰)، ’’ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں ‘‘ (ص: ۴۸)، ’’تذکرہ علمائے بہار‘‘ (۱/۶۹)