کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 166
ایک فتوے پر تعاقب بھی کیا تھا، مگر افسوس بہارِ حیات کی چند ہی منزلیں عبور کرنے کے بعد تقریباً ۱۹۳۵ء میں وفات پائی۔
حکیم صاحب نے دوسرا نکاح رمضان پور کے ایک رئیس عالم کی صاحبزادی سے کیا، جن سے ایک صاحبزادے عبد المعز اور دو صاحبزادیاں ہوئیں ۔ صاحبزادے نے اپنے والد کے ساتھ ہجرت نہیں کی اور شریف ہی میں مستقل اقامت رکھی۔ علامہ شمس الحق کے اخلاف میں یہ واحد فرد تھے جو بہار میں مقیم رہے، تاہم انھوں نے بھی وفات پائی اور اپنے پیچھے کوئی اولادِ نرینہ نہیں چھوڑی۔ اب بہار میں علامہ شمس الحق سے براہِ راست نسبی تعلق رکھنے والا کوئی فرد موجود نہیں ۔
وفات:
مولانا حکیم محمد ادریس نے ۱۲۹۸ھ کو بڑے جاہ و حشمت کے ماحول میں آنکھ کھولی اور ۱۳۸۰ھ/ دسمبر ۱۹۶۰ء کو ڈھاکہ میں مسافرانہ بیکسی کی حالت میں وفات پائی۔[1]
[1] مولانا حکیم ابو عبد اللہ محمد ادریس ڈیانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ’’یادگارِ گوہری‘‘ (ص: ۱۱۳۔۱۲۰)، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ مارچ ۱۹۱۱ء (مضمون نگار: مولانا ثناء اللہ امرتسری)، و ۱۲ دسمبر ۱۹۱۹ء (مضمون نگار: مولانا ابو القاسم سیف بنارسی)، ’’ہندوستان میں اہلِ حدیث کی علمی خدمات‘‘ (ص: ۱۵۶)، ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ‘‘ (۲۶۲۔۲۶۴)، ’’مولانا شمس الحق عظیم آبادی۔ حیات و خدمات‘‘ (ص: ۶۹، ۷۰)، ’’جماعت اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات‘‘(ص: ۶۷۷، ۷۷۱)