کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 164
ہے کہ اس کو ایسا نمایاں فرمائیں کہ صوبہ بہار کی بہار تمام ہندوستان کو شگفتہ کر دے۔‘‘[1] یہ مدرسہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ پہلے سفارت کار مولانا ابو نعیم محمد ابراہیم گئے، پھر بقیہ مدرسین اور عملے نے رختِ سفر باندھا، اور پھر مولانا ابو طاہر بہاری کی جانب سے آخری اطلاع یہ آئی: ’’مدرسہ جامع ازہر ڈیانواں ضلع پٹنہ عرصہ سے بند ہے۔ کھلنے پر اطلاع دی جائے گی، تا اطلاعِ ثانی بند سمجھیں ۔‘‘[2] مولانا ابو طاہر نے اس کے بعد ’’مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ‘‘ دہلی میں ایک عرصہ تک بحسن و خوبی فرائضِ تدریس انجام دیے۔ ’’جامع ازہر‘‘ کے لیے جگہ بھی میسر آگئی اور سرمایہ بھی مہیا ہو گیا، مگربوجوہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ اور محمد علی جناح سے تعلق: علامہ شمس الحق کے ماموں مولانا محمد احسن ڈیانوی کے نواسے شاہ محمد کمال مسلم لیگ بہار کے بانی رکن تھے، انہی کے توسط سے حکیم محمد ادریس بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور مسلم لیگ سے واقف ہوئے اور پھر سیاسیات میں مسلم لیگ کے زبردست حامی ہو گئے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح، مولانا اکرم خاں ، مولانا راغب احسن وغیرہم سے ذاتی مراسم تھے۔ مولانا ادریس اپنے اطراف کے بہت بڑے زمیندار تھے۔ انھوں نے زندگی میں کئی مقدمات لڑے جن کی تاریخ پٹنہ ہائی کورٹ میں محفوظ ہے۔ اپنے ایک مقدمہ کے لیے انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمات بھی لی تھیں ۔ معاصر علماء سے روابط: اہلِ حدیث علماء بالخصوص اپنے والد کے دوستوں سے قریبی تعلق تو تھا ہی، تاہم اپنے ہم جلیس علماء میں مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا یوسف شمس فیض آبادی، مولانا ابو القاسم سیف بنارسی وغیرہم سے خاص تعلق تھا۔ مولانا عبد الرحیم صادق پوری اور علامہ شمس الحق نے پٹنہ میں مدرسہ اصلاح المسلمین قائم کیا،
[1] ماہنامہ ’’اہل الذکر‘‘ (فیض آباد) جمادی الثانی ۱۳۴۰ھ/ فروری ۱۹۲۲ء [2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۰ نومبر ۱۹۲۲ء