کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 163
موضع دار العلم تھا۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کی اولاد وغیرہ اقرباء نے ایک مدرسہ تعلیم دینیات کے لیے جاری کیا ہے، جس میں مدرسہ احمدیہ آرہ کے مدرسین کو (جو مدرسہ موصوفہ سے چلے گئے تھے) رکھ لیا ہے۔ جو صاحب اس مدرسہ کے متعلق کسی قسم کی خط کتابت کریں یا امداد دینا چاہیں تو وہ مولوی حکیم محمد ادریس وغیرہ موضع مذکور ڈاکخانہ کرائے پر سرائے کے پتہ سے کریں ۔‘‘[1] مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی لکھتے ہیں : ’’جامع ازہر ڈیانواں ضلع پٹنہ میں بہ نظامت جناب حکیم مولوی محمد ادریس صاحب رئیس ڈیانواں خلف الرشید حضرت مولانا شمس الحق صاحب محدث قائم ہو گیا ہے۔ بہار ضلع پٹنہ میں حکیم صاحب موصوف اور مولانا ابو طاہر صاحب بہاری و دیگر چند حضرات سے خاکسار مدیر اہل الذکر کو اس تجویز و تحریک میں شرفِ نیاز حاصل ہوا تھا۔ اس کا افتتاحی جلسہ ۲۵ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۹ھ کو تھا، خاکسار بھی مدعو تھا، مگر نہ پہونچ سکا۔ اب غالباً شعبان میں جلسہ بڑے پیمانہ پر ہو گا جس میں نصاب کی درستی اور کام کو اعلیٰ پیمانہ پر چلانے کے لیے تجاویز پر غور ہو گا۔ ان شاء اللہ۔‘‘[2] مگر بڑے پیمانے پر جلسے کی نوبت شاید نہ آ سکی۔[3] ’’جامع ازہر‘‘ کے قیام کے بعد اور جس پیمانے پر یہ مدرسہ قائم کیا گیا۔ اکابر علما کو اس سے بڑی امیدیں وابستہ ہو گئی تھیں ۔ مدرسے کے ناظم مولانا حکیم محمد ادریس اور نائب ناظم مولانا ابو طاہر بہاری تھے۔ یہ دونوں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ ایک اور قابلِ ذکر مدرس مولانا مولا بخش بڑاکری بہاری تھے۔ مدرسے کی سفارت کا فریضہ مولانا ابو نعیم محمد ابراہیم بہاری انجام دیتے تھے۔ مولانا یوسف شمس فیض آبادی لکھتے ہیں : ’’جامع ازہر ڈیانواں جسے ہم سمجھتے تھے کہ مدرسہ احمدیہ آرہ کا سچا قائم مقام ہو گا، اب تک گوشہ گمنامی میں پڑا ہے۔ مولانا محمد ادریس صاحب رئیس ڈیانواں کی خدمت میں بادب عرض
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳۱ دسمبر ۱۹۲۰ء [2] ماہنامہ ’’اہل الذکر‘‘ (فیض آباد) رجب ۱۳۳۹ء [3] ماہنامہ ’’اہل الذکر‘‘ (فیض آباد) رمضان المبارک ۱۳۳۹ء